غزہ(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کے اجڑے آسمان تلے، ملبوں کے درمیان ایک اور قلم خاموش ہو گیا۔ مرکزاطلاعات فلسطین کا جری صحافی محمد داود الدایہ، جس نے اپنی زندگی کو سچ کی گواہی بنا دیا تھا، قابض اسرائیل کے ایک وحشیانہ فضائی حملے میں جامِ شہادت نوش کر گیا۔
38 سالہ محمد الدایہ نہ صرف ایک باکمال صحافی تھے بلکہ ایک محبت کرنے والے باپ، وفادار شوہر اور خدمتِ انسانیت کے پیکر بھی تھے۔ وہ اپنے دو جڑواں بچوں، حمزہ اور حلا، کا خواب سینے میں لیے دنیا سے رخصت ہوئے — وہ خواب جو اب معصوم آنکھوں میں ان کی یاد کے چراغ بن کر جل رہا ہے۔
باپ کا ٹوٹا خواب
محمد الدایہ کی اہلیہ امانی صافی نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار کو بتایا کہ ’محمد اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی اپنے بچوں میں دیکھتا تھا۔ وہ حمزہ سے کہتا کہ تم ایک دن سب سے خوبصورت ڈاکٹر بنو گے۔ ان شاء اللہ اور حلا سے کہتا کہ میں تمہیں ایک کامیاب دندان ساز کے روپ میں دیکھوں گا”۔
لیکن تقدیر نے ایک لمحے میں یہ خواب توڑ دیا۔ جس دن وہ شہید ہوا، ننھی حلا باپ کے قریب بیٹھی تھی، اس نے پانی کا گلاس دیا اور باپ نے نرمی سے کہا: “بیٹی، تھوڑا دور ہو جاؤ۔” شاید اس کا دل پہلے ہی کسی ابدی بلاوے کو محسوس کر چکا تھا۔
چند لمحے بعد صہیونی میزائل نے آسمان کو چیر کر زمین پر تباہی برپا کی اور محمد الدایہ اپنے خون میں نہا گئے۔ ان کے بچے وہیں کھڑے باپ کی لاش پر نگاہیں جمائے تھے۔ ننھی حلا نے وضو کیا، دو رکعت نماز پڑھی اور رب کا شکر ادا کیا کہ اس کے والد کو شہادت نصیب ہوئی۔ یہ منظر، ایمان، صبر اور تربیت کی وہ گہری جھلک پیش کرتا ہے جو ایک فلسطینی گھر کی بنیاد میں پیوست ہے۔
مشن سے جڑے رہنے والا صحافی
محمد الدایہ مرکزاطلاعات فلسطین کے عربی شعبے میں سوشل میڈیا سیکشن سے وابستہ تھے۔ وہ 27 ستمبر کو اس وقت شہید ہوئے جب قابض اسرائیل کے طیاروں نے دیرالبلح کے علاقے ابو عریف سڑک پر ایک خیمے پر بمباری کی۔ وہ چند روز پہلے ہی غزہ شہر سے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ وہاں منتقل ہوئے تھے۔
وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ “ہم جو لکھتے ہیں وہ محض الفاظ نہیں، یہ قوم کی آواز ہے جسے ہم مر کر بھی خاموش نہیں ہونے دیں گے”۔
ان کی اہلیہ امانی ماہر کہتی ہیں “میں اسے کہتی تھی کہ تھوڑا آرام کر لو، مگر وہ جواب دیتے، ’غزہ کا صحافی رکنے کا متحمل نہیں ہو سکتا‘۔
محمد جانتے تھے کہ خطرہ ہر وقت ان کے سر پر منڈلا رہا ہے، مگر وہ رکنے کو گناہ سمجھتے تھے۔
انسانیت کا عاشق
قلم کے میدان سے ہٹ کر بھی محمد ایک بے مثال انسان تھے۔ جنگ اور محاصرے کے باوجود وہ اپنی اہلیہ اور بچوں کو ساتھ لے کر غریبوں کے لیے کھانے پینے کی اشیاء اور سبزیاں تقسیم کرتے۔ وہ کہتے کہ “میں اکیلا اجر نہیں لوں گا، ہم سب مل کر لیں گے”۔
امانی بتاتی ہیں کہ “وہ بیمار ہوتے تب بھی دوسروں کی مدد کرتے۔ کبھی پانی بھرتے، کبھی گھروں کی صفائی میں ہاتھ بٹاتے۔ وہ اپنی ذات سے زیادہ دوسروں کو ترجیح دیتے”۔
صبر اور فخر کی علامت
شہادت کی خبر ملی تو امانی نے گھر والوں کو اطلاع دی، پھر سب کو صبر و عزم کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ انہوں نے صرف اتنا کہاکہ “مجھے مبارک دیں، میرے شوہر نے شہادت پائی ہے”۔
یہ جملہ اُس عورت کے دل سے نکلا جس کے شوہر نے زندگی کو سچ کی گواہی اور موت کو عزت کا نشان بنا دیا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کی خراجِ عقیدت
ادارے نے اپنے بیان میں کہا کہ “محمد الدایہ نے اپنی تحریروں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر قابض اسرائیل کی درندگی کو بے نقاب کرنے کے لیے انتھک محنت کی۔ وہ غزہ کے محصور عوام کی آواز تھے جو نسل کشی کی آگ میں جل رہے ہیں۔ ان کی شہادت کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک منظم پالیسی کا تسلسل ہے جس کے تحت قابض اسرائیل صحافیوں کو نشانہ بنا رہا ہے تاکہ سچ دب جائے۔”
مرکزاطلاعات فلسطین نے بتایا کہ محمد، ڈاکٹر رزق الغرابلی اور ڈاکٹر رفعت العرعیر کے بعد ادارے کے تیسرے صحافی ہیں جو قابض اسرائیل کی بمباری میں شہید ہوئے۔
ایک زندہ ورثہ
محمد الدایہ اپنے پیچھے محبت، قربانی اور سچائی کی وہ خوشبو چھوڑ گئے جو کبھی ماند نہیں پڑے گی۔ ان کے بچے حمزہ اور حلا ان کے خوابوں کو آگے بڑھائیں گے، ان کے الفاظ اب بھی گونج رہے ہیں، اور ان کی سچائی دنیا کے ضمیر پر دستک دے رہی ہے۔
محمد الدایہ چلے گئے، مگر ان کا قلم زندہ ہے، ان کی تحریریں زندہ ہیں، اور ان کا عزم ہر فلسطینی کے دل میں دھڑک رہا ہے۔