غزہ(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جمعہ کے روز اپنے بیان میں کہا کہ قابض اسرائیل کی طرف سے غزہ شہر پر وحشیانہ اور شدت اختیار کرتی جارحیت نے زبردستی اجتماعی ہجرت کے ایک نئے اور تباہ کن مرحلے کو جنم دیا ہے۔
ادھر اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے سربراہ نے الجزیرہ کو بتایا کہ غزہ شہر کی تقریباً نصف آبادی کو جنوبی غزہ کی طرف دھکیل دیا گیا ہے جبکہ وسطی اور جنوبی علاقوں میں بھی پناہ گزینوں کے ٹھکانوں پر قابض فوج کی بمباری جاری ہے۔
ایمنسٹی نے واضح کیا کہ جنوبی غزہ میں پناہ گزینوں کے مقامات پانی، خوراک، طبی سہولیات اور بنیادی ڈھانچے سے یکسر محروم ہیں جس کے باعث لاکھوں شہری موت کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔
تنظیم نے کہا کہ غزہ شہر اور شمالی غزہ میں اب بھی لاکھوں فلسطینی قابض فوج کے شدید فضائی اور زمینی حملوں کے نیچے محصور ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ آٹھ اگست کو صہیونی حکومت نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کی تجویز کردہ اس منصوبے کی منظوری دی تھی جس کے تحت عالمی فوجداری عدالت کو مطلوب یہ جنگی مجرم غزہ پر دوبارہ بتدریج قبضے کا منصوبہ آگے بڑھا رہا ہے۔ اس منصوبے کا آغاز غزہ شہر سے کیا گیا جہاں تقریباً دس لاکھ فلسطینی بستے ہیں۔
صرف تین دن بعد ہی قابض اسرائیلی فوج نے غزہ شہر پر ہمہ گیر فوجی یلغار کی جس میں گھروں، رہائشی عمارتوں، پناہ گزینوں کے خیموں، ہسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا اور اندرونی علاقوں میں زمینی دراندازیاں کی گئیں جس سے بڑے پیمانے پر شہریوں کی نقل مکانی ہوئی۔
یاد رہے کہ سات اکتوبر سنہ2023ء سے قابض اسرائیل امریکہ کی آشیرباد کے ساتھ غزہ میں کھلی نسل کشی کر رہا ہے جس کے نتیجے میں اب تک 66 ہزار 288 فلسطینی شہید اور 1 لاکھ 69 ہزار 165 زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے جبکہ مسلط کردہ قحط نے 455 فلسطینیوں کو نگل لیا ہے جن میں 151 معصوم بچے شامل ہیں۔