غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیل کی غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف اپنی نسل کشی کی جنگ آج 729ویں روز میں جاری ہے۔ یہ جنگ امریکی سیاسی و عسکری پشت پناہی اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی کے سائے میں جاری ہے۔ قابض فوج فضائی و زمینی بمباری کے ذریعے بھوک سے نڈھال اور بے گھر فلسطینیوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
نامہ نگاروں کے مطابق قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کے مختلف علاقوں پر درجنوں فضائی حملے کیے اور کئے نئے قتل عام کیے۔ لاکھوں بے گھر فلسطینی شہری شدید قحط اور بھوک سے دوچار ہیں جبکہ قابض فوج نے غزہ شہر پر اپنے حملے تیز کر دیے ہیں تاکہ اسے مکمل طور پر اجاڑ دیا جائے۔
یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قابض اسرائیل سے فوری طور پر فوجی کارروائیاں روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جمعہ کی شب اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے اعلان کیا کہ وہ تمام اسرائیلی قیدیوں اور ہلاک شدہ فوجیوں کی لاشوں کی رہائی کے لیے مجوزہ تبادلہ فارمولے کو قبول کرتی ہے اور وہ فوری مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
تاہم قابض اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کے دفتر نے ہفتے کی صبح بیان دیا کہ اسرائیل “ٹرمپ پلان کے پہلے مرحلے پر فوری عمل درآمد کی تیاری کر رہا ہے” اور امریکہ کے ساتھ مل کر “اسرائیلی اصولوں کے مطابق جنگ کے خاتمے” پر کام جاری رکھے گا۔
قابض اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زامیر نے بھی اپنی افواج کو پہلے مرحلے کے نفاذ کی تیاری کا حکم دیا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق سیاسی قیادت نے فوج کو غزہ شہر پر قبضہ روکنے اور عسکری کارروائیوں کو دفاعی حد تک محدود کرنے کی ہدایت دی ہے۔
طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ آج صبح سے غزہ کے مختلف علاقوں میں قابض فوج کی گولہ باری اور بمباری سے درجنوں شہری شہید ہو چکے ہیں جن میں کئی ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو امداد کے انتظار میں تھے۔
غزہ شہر کے مشاہرہ علاقے میں ایک گھر پر بمباری کے نتیجے میں کئی شہری زخمی ہوئے جبکہ قابض اسرائیلی فضائیہ نے اسی علاقے میں مظلوم خاندان کے گھر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔
اقوام متحدہ کی ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے کہا ہے کہ جنوبی غزہ میں کسی “محفوظ علاقے” کا تصور سراسر مذاق ہے۔ وہاں فضا سے روزانہ بمباری کی جاتی ہے، سکولوں کو جو پناہ گاہوں کے طور پر نامزد کیے گئے تھے ملبے میں بدل دیا گیا ہے اور خیموں کو منظم انداز میں جلایا جا رہا ہے۔
دوسری جانب ہالینڈ اور بیلجیم کی 302 ثقافتی و فنی اداروں نے قابض اسرائیلی اداروں کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
وزارت داخلہ غزہ کے ایک سکیورٹی ذریعے نے بتایا کہ گذشتہ روز خان یونس میں قابض اسرائیل کے فضائی حملے میں 20 فلسطینی پولیس اہلکار اس وقت شہید ہوئے جب وہ امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کی کارروائی میں مصروف تھے۔ قابض افواج نے ان پر حملہ کر کے سکیورٹی انتشار پھیلانے والی گروہوں کو تحفظ فراہم کیا۔
بلدیہ غزہ کے مطابق تقریباً پانچ لاکھ شہری جن میں زیادہ تر بچے، خواتین اور بزرگ شامل ہیں انتہائی ابتر انسانی حالات میں زندہ ہیں۔ انہیں ناکافی خوراک، آلودہ پانی اور بنیادی طبی سہولیات کی کمی کا سامنا ہے جبکہ قابض فوج کی تباہ کن بمباری ان کی زندگیوں کو مزید اجیرن بنا رہی ہے۔
قابض اسرائیلی فوج نے غزہ شہر میں کئی رہائشی عمارتیں دھماکوں سے اڑا دیں۔ اس کے علاوہ ڈرون طیاروں نے مغربی غزہ کے فندق الامل کے اطراف میں اندھا دھند فائرنگ کی۔ شمال مشرقی غزہ میں بھی بھاری بمباری کی گئی جس سے شہری علاقوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
غزہ کے سول ڈیفنس کے ترجمان کے مطابق “شہر اس وقت دیوانہ وار اور بے رحمانہ بمباری کی زد میں ہے”۔
قابض اسرائیل کی توپخانے نے النصیرات کیمپ کے شمالی علاقوں پر بھی شدید گولہ باری کی۔
نسل کشی جاری ہے
غزہ پر قابض اسرائیل کی طرف سے امریکہ کی مکمل سرپرستی میں جاری اس نسل کشی نے وزارت صحت کے مطابق اب تک 66,288 فلسطینیوں کو شہید اور 169,165 کو زخمی کیا ہے، جبکہ 9,000 سے زائد لاپتہ ہیں۔ قحط نے سیکڑوں جانیں نگل لی ہیں، اور دو ملین سے زائد شہری جبری بے گھری اور مکمل تباہی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
قابض اسرائیل نے بچوں کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا ہے۔ اب تک 20,000 سے زائد بچے اور 12,500 خواتین شہید ہو چکی ہیں جن میں 8,990 مائیں شامل ہیں۔ ایک ہزار سے زیادہ شیر خوار بچے شہید ہوئے، جن میں سے 450 وہ تھے جو جنگ کے دوران پیدا ہوئے اور بعد میں قابض بمباری کا نشانہ بنے۔
مارچ سنہ2025ء کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد سے 13,420 فلسطینی شہید اور 57,124 زخمی ہوئے۔
27 مئی کو قابض اسرائیل نے امدادی مراکز کو قتل گاہوں میں بدل دیا، جس کے بعد سے 2,597 فلسطینی شہید اور 19,054 زخمی ہوئے جبکہ 45 لاپتہ ہیں۔ اسرائیل نے امریکہ کے اشتراک سے قائم نام نہاد “غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن” کو انسانی خدمت کے بجائے قتل و تسلط کا آلہ کار بنا رکھا ہے۔
قحط اور بھوک سے اب تک 457 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں 152 بچے شامل ہیں۔
اس جنگ میں 1,670 طبی اہلکار، 139 سول ڈیفنس رضاکار، 248 صحافی، 173 بلدیاتی کارکن اور 780 پولیس اہلکار شہید ہو چکے ہیں، جبکہ 860 کھلاڑی بھی قابض درندگی کا نشانہ بنے۔
قابض اسرائیلی فوج نے اب تک 15,000 سے زائد اجتماعی قتل عام کیے جن میں 14,000 سے زیادہ فلسطینی خاندان مکمل طور پر مٹ گئے، جب کہ 2,700 خاندانوں کا نام فلسطینی شہری رجسٹری سے ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی 88 فیصد عمارتیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکی ہیں، جس سے 62 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ قابض اسرائیلی فوج اس وقت غزہ کی 77 فیصد زمین پر قبضہ جمائے ہوئے ہے۔
قابض اسرائیل نے 163 سکول، یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے مکمل طور پر اور 369 جزوی طور پر تباہ کیے، 833 مساجد ملبے میں بدل دی گئیں جبکہ 167 جزوی طور پر متاثر ہوئیں، اور 19 قبرستانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔