نیویارک (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قابض اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ پر بمباری فوراً بند کرے تاکہ قابض اسرائیلی قیدیوں کو محفوظ اور تیزی سے نکالنے کی راہ ہموار ہو سکے۔
ٹرمپ نے حماس کی جانب سے اپنے پیش کردہ منصوبے کے جواب پر پہلی بار تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حماس کا بیان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ایک مستقل اور دیرپا امن تک پہنچنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات کسی بھی رہائی کی کارروائی کے لیے نہایت خطرناک ہیں تاہم متعلقہ فریقین پہلے ہی ایسے نکات پر گفتگو کر رہے ہیں جن پر اتفاق رائے ضروری ہے۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ یہ معاملہ صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں ایک دیرینہ امن کے قیام سے جڑا ہوا ہے۔
قابض اسرائیل نے ان مطالبات پر فی الحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
اس سے قبل ٹرمپ نے حماس کے اس بیان کو اپنے “ٹروتھ سوشیل” پلیٹ فارم پر شائع کیا تھا جس میں تحریک نے منصوبے پر اپنا موقف واضح کیا۔
یاد رہے کہ جمعہ کی شام حماس نے اعلان کیا تھا کہ وہ قابض اسرائیل کے تمام قیدیوں کو، چاہے زندہ ہوں یا ان کی لاشیں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ تبادلے کے فارمولے کے تحت رہا کرنے پر آمادہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی جنگ کے فوری خاتمے اور غزہ سے قابض اسرائیل کے مکمل انخلا کے لیے حالات فراہم کیے جائیں۔
حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ اس نے صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے پر اپنا باضابطہ جواب تفصیلی مشاورت کے بعد دیا ہے۔ یہ مشاورت حماس کی تنظیمی قیادت، فلسطینی قوتوں اور جماعتوں، ثالثوں اور دوست ممالک کے ساتھ طویل غور و فکر کے بعد مکمل کی گئی۔ حماس نے کہا کہ وہ ثالثوں کے ذریعے فوری مذاکرات میں داخل ہونے کے لیے تیار ہے تاکہ اس منصوبے کی باریک تفصیلات پر بات چیت ہو سکے۔
حماس نے عرب، اسلامی اور عالمی سطح پر کی جانے والی تمام کوششوں کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ان کوششوں کی بھی تعریف کی جو غزہ پر جنگ بند کرانے، قیدیوں کے تبادلے، فوری امداد کی ترسیل، غزہ کے قبضے کو مسترد کرنے اور فلسطینی عوام کی جبری بے دخلی کو روکنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
حماس نے ایک بار پھر اپنے اس موقف کی تجدید کی کہ وہ غزہ کی انتظامیہ کو ایک غیر جانبدار فلسطینی اتھارٹی یعنی تکنوکریٹس کے سپرد کرنے پر تیار ہے جو فلسطینی قومی اتفاق رائے اور عرب و اسلامی حمایت پر مبنی ہو۔