سیکرٹری جنرل (فلسطین فائونڈیشن پاکستان )صمود فلوٹیلا جو کہ ایک امدادی اسمندری قافلہ ہے۔ یہ قافلہ اسپین سے چلا اور تیونس پہنچنے کے بعد اب غزہ کے ساحل کی طرف رواں دوان تھا جس پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے کھلے سمندر میں حملہ کر دیا ہے یعنی اس قافلہ کو روک لیا گیا ہے اور متعدد کشتیوں کو صیہونی غاصب فوجیوں نے قبضہ میں لے کر کارکنوں کو اغوا کر لیا ہے۔ اس امدادی قافلہ میں 45ممالک سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن تھے۔ قافلہ میں یورپی ممالک کے نامور افراد اور شخصیات بھی شریک ہیں جبکہ جنوبی افریقہ میں انقلاب لانے والی والی قیادت نیلسن مینڈیلا کے پوتے مانڈیلا بھی موجود تھے۔ بائیس سالہ سوئیڈش لڑکی گریٹا تھنبرگ جو پہلے بھی غز میں ایک قافلہ کے ساتھ آنے کے بعداسرائیلی غاصب فوجیوں کے ہاتھوں یرغمال بنا لی گئی تھی وہ بھی اس قافلہ پر موجود ہے۔
صمود فلوٹیلا نامی امدادی قافلہ پر ہونے والا حالیہ حملہ انسانیت، بین الاقوامی قانون اور انسانی ضمیروں پر کیے گئے حملوں کی تازہ مثال ہے۔یہ حملہ صرف کشتی میں سوار افراد پر نہیں ہے بلکہ 45ممالک کے شہریوں یعنی 45ممالک کے خلاف جارحیت ہے۔ پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ کوئی بھی غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف عملی اقدام کرنے کو تیار نہیں ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ جب ایک پرامن امدادی قافلہ، جو محصور اور مظلوم عوام کے لئے خوراک، دوا اور طبی سامان لے کر جارہا ہو، اسے سمندر میں نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ واقعہ محض ایک فوجی کارروائی نہیں رہ جاتا بلکہ اس کی تباہ کن جہتیں اخلاق، قانون اور عالمی انصاف کے خلاف ایک سنگین چیلنج بن جاتی ہیں۔یہ انسانیت پر کھلم کھلا جارحیت ہے۔ یہ بین الاقوامی قوانین کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سمندری قوانین کی بھی خلاف ورز ی ہے۔
پوری دنیا یہ بات جانتی ہے کہ صمود فلوٹیلا ایک انسانی مشن تھا جس کا بنیادی مقصد غزہ کے محصور اور کسمپرسی کی کیفیت میں مبتلا عوام کے لئے بنیادی امداد اور طبی خدمات پہنچانا تھا۔غزہ کے عوام جو پہلے ہی 18سالوں سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے محاصرے میں ہیں اور حالیہ دنوں غزہ میں بھوک اور پیاس کو اسرائیل کی جانب سے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جس کے سبب معصوم بچے اور خواتین بھوک اور پیاس کی شدت سے موت کی نیند سو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں صمود فلوٹیلا غزہ کے لئے ایک امید کی کرن تھا۔یقینی طور پر ایسے مشنز کا مقصد صرف اشیائے ضرورت پہنچانا نہیں بلکہ بین الاقوامی ضمیر کو جگانا، محاصرہ کی سنگینی کو دنیا کے سامنے لانا اور مظلوم عوام کے لئے عالمی توجہ حاصل کرنا بھی ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں فلوٹیلا کی کوشش ایک اخلاقی اور انسانی اقدام تھا، نہ کہ کسی عسکری یا سیاسی مہم کا حصہ۔غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے اس امدادی قافلہ پر حملہ کر کے بتا دیا ہے کہ وہ دنیا میں کسی قانون کو نہیں مانتی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی انسانی اور اخلاقی اقدار کی پاسداری اسرائیل کے لئے لاگو ہے۔یعنی اسرائیل ایک ایسا بد مست ہاتھی ہے جس کی لگام امریکی حکومت کے ہاتھوں میں ہے۔صمود فلوٹیلا پر یہ حملہ کا اصل ذمہ دار امریکہ ہے۔
غاصب اسرائیل کی افواج نے کھلے سمندر میں صمود فلوٹیلا پر حملہ کر کے اسے نشانہ بنایا۔ اس حملے کے نتیجے میں انسانی جانی و جسمانی نقصان کی اطلاعات نہیں ہیں لیکن ان انسانی حقوق کے کارکنو ں کو اسرائیلی غاصب فوج نے یرغمال بنا لیا ہے۔ اسی طرح غاصب اسرائیلی فوج نے امدادی سامان کو پہنچنے سے روک دیا ہے۔اس صورتحال میں صمود فلوٹیلا کے عملے و رضاکاروں کوبھی شدید خطرات کا سامناہے۔ اس طرح کی کارروائیاں بین الاقوامی پانیوں میں بھی امن و سلامتی کے اصولوں اور امدادی مشنز کے تحفظ کے بنیادی ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں۔
بین الاقوامی قوانین، بشمول اقوام متحدہ کے چارٹر اور بحری قوانین، غیر مسلح امدادی مشنز کے احترام اور حفاظت کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ کھلی سمندری حدود میں غیر مسلح کشتیوں پر بلاجواز حملہ کرنا نہ صرف اخلاقی طور پر ناقابل قبول ہے بلکہ قانونی لحاظ سے بھی سنگین جرم ہے۔ اس حملے نے متعدد بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے:شہری اور انسانی مقاصد کے حامل جہازوں کو نشانہ نہ بنانے کا اصول؛بین الاقوامی پانیوں میں ریاستی حدود کا لحاظ؛امدادی کارروائیوں کے تحفظ کا تقاضہ۔ان واضح شواہد کے باوجود، حملہ آور ریاست کا رویّہ اس امر کی علامت ہے کہ وہ خود کو بین الاقوامی قوانین سے بالا تر سمجھتی ہے جو عالمی عدالتی نظام کی بنیادوں کے لئے خطرناک مثال ہے۔
یہ بات یاد رہنی چاہئیے کہ غزہ کے عوام گزشتہ 18 سال سے محاصرے، بار بار کی جارحیت، بنیادی سہولتوں کی کمی اور اقتصادی دیوالیہ کے شکار ہیں۔ ایسے حالات میں امدادی مشنز امید کی کرن ہوتے ہیں ،خوراک، دوائیں اور طبی مدد کے ذریعے کم از کم ابتدائی راحت اور زندہ رہنے کی امید فراہم کرتے ہیں۔ صمود فلوٹیلا کی کوشش اس امید کا مظہر تھی، جسے غیر ذمہ دارانہ اور ظالمانہ انداز میں ناکام بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس حملے نے نہ صرف امدادی سامان کی روانگی روکی بلکہ عالمی ضمیر کو بھی مسمتر کر دیا۔سیاسی و اخلاقی تجزیہ صیہونی ریاست کا یہ عمل صرف ایک فوجی پالیسی کا اظہار نہیں بلکہ اس کے اندر ایک واضح سیاسی پیغام پوشیدہ ہے۔مسلط قوتیں انسانی ضوابط اور عالمی رتبے کو نظرانداز کر کے اپنے مفادات کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں۔ اس واقعے نے عالمی طاقتوں اور بین الاقوامی اداروں کی خاموشی کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ جب عالمی ادارے اور بڑی ریاستیں ایسے واقعات پر مؤثر رد عمل ظاہر نہیں کرتیں تو یہ مظلوم اقوام کی حالتِ زار کو مزید طول دیتا ہے۔عالمی برادری کی ذمہ داری اور خاموشی کا سوال اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے خلاف ورزیوں کو فوری طور پر نوٹس میں لائیں، تحقیقاتی کمیشن قائم کریں اور اقدام کریں۔ عالمی طاقتوں کی خاموشی یا محض بیانات پر اکتفا کرنا کافی نہیں؛ جب انسانیت کو خطرہ ہو تو عملی اور پابند کن اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے: تحقیقاتی مشنز، سفارتی پابندیاں، اور بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات۔ پاکستان کے عوام فلسطینی عوام کے مسئلے میں دل و جان سے شریکِ غم ہیں۔ ہمیں مخلصانہ اور عملی یکجہتی دکھانی ہوگی۔ بیانات سے آگے بڑھ کر لازمی اقدامات کیے جانے چاہئیں۔اقوام متحدہ اور او آئی سی میں واضح موقف اور قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا جانا چاہئیے۔انسانی امدادی آپریشنز کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی قانونی فریم ورک کا نفاذ،مظلوم فلسطینی عوام کے لیے طبی امداد اور معاشی معاونت میں اضافے کی کوششیں،عرب ممالک اور مسلم دنیا کا متحد اور مؤثر سفارتی دباؤ ڈالنا چاہئیے۔عوامی اور سول سوسائٹی کا کردارایسے وقت میں کہ جب ریاستیں ناکافی ردِ عمل دکھا رہی ہوں، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیمیں، صحافی، وکلاء اور طلباء کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ انہیں حقائق کو بے نقاب کرنا، شواہد جمع کرنا، قانونی چارہ جوئی میں حصہ لینا اور عالمی ضمیر کو بیدار رکھنے کے لیے موثر مہمات چلانی چاہئیں۔نتیجہ اور اپیل صمود فلوٹیلا پر حملہ انسانیت کے ضمیر پر حملہ ہے نہ کہ صرف کسی ایک قوم یا علاقے کے خلاف اقدام۔