مقبوضہ بیت المقدس (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس ‘کے رہنما عبدالرحمن شدید نے واضح کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ صرف حماس کو نشانہ نہیں بناتا بلکہ یہ پوری فلسطینی قوم، اس کی سیاسی جماعتوں، اس کے حقوق، اس کے ثوابت اور قضیے کے وجود و مستقبل کو وہم و گمان سے زیادہ خطرناک انداز میں متاثر کرتا ہے۔
عبدالرحمان شدید نے صحافتی بیانات میں کہا کہ یہ منصوبہ متعدد سنگین خطرات لیے ہوئے ہے جو پورے قضیے کے مستقبل کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اُن کے بقول اس کا جواب محض عسکری یا فصلی ردعمل نہیں ہوگا بلکہ ایک وطن پر مبنی جامع ردعمل ہوگا جو پوری فلسطینی قوم کا ترجمان ثابت ہوگا۔
عبدالرحمن شدید نے بتایا کہ حتمی ردعمل کا اعلان مشاورت کے بعد کیا جائے گا جو اس وقت مختلف فلسطینی فصائل کے ساتھ جاری ہے۔
پیر کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قابض اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کے ساتھ مشترکہ طور پر ایک منصوبہ پیش کیا تھا جس کا دعویٰ جنگ بند کرانے کا ہے۔ اس منصوبے میں ایک ہی وقت میں قابض اسیران کی رہائی اور مزاحمتی گروہوں کے اسلحے کی ضبطی کا مطالبہ شامل ہے، بدلے میں وہ چند علاقوں سے قابض فوجی پسپائی، تعمیر نو کے وعدے اور بعض فصائل کو نام نہاد الگ کرنے کی پیشکش بھی کر رہے ہیں۔
شدید نے انتباہ کیا کہ کوئی بھی حل جو بیرونی دباؤ اور دبائؤ کے تحت فلسطینی حقوق کو مسخ کرے، قبول نہیں ہوگا اور فلسطینی موقف اسی بنیاد پر طے پایے گا کہ اُن کے بنیادی تاریخی و سیاسی حقوق تسلیم کیے جائیں۔