غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )غزہ کی وزارت صحت نے خبردار کیا ہے کہ ادویات اور طبی سامان کی شدید قلت نے ہسپتالوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے، جس کے باعث ڈاکٹروں اور طبی عملے کو تباہ کن چیلنجز کا سامنا ہے۔ قابض اسرائیل کے فوجی محاصرے اور امداد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی پالیسی نے صورتحال کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے۔
وزارت صحت نے اپنے بیان میں کہا کہ “ادویات اور طبی سامان کی کمی نے طبی عملے کے کام کو شدید متاثر کیا ہے اور مریضوں اور زخمیوں کی زندگیوں کو سنگین خطرے میں ڈال دیا ہے۔”
بیان میں مزید کہا گیا کہ قابض اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور جان بوجھ کر ہسپتالوں تک ہنگامی طبی سامان کی ترسیل روکنے کی کوششیں مریضوں کے لیے حالات کو مزید بگاڑ رہی ہیں۔ وزارت نے عالمی برادری سے فوری اقدام کا مطالبہ کیا تاکہ غزہ کے ہسپتالوں کو بنیادی سہولتیں میسر آ سکیں اور مکمل صحتیاتی نظام کے انہدام کو روکا جا سکے۔
وزارت صحت کئی بار خبردار کر چکی ہے کہ ادویات اور طبی سامان کی شدید کمی، قابض اسرائیل کی جانب سے گذشتہ مارچ سے غزہ کی گذرگاہوں پر سخت بندش اور امدادی قافلوں کو روکنے کی پالیسی کے باعث ہسپتالوں میں انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔
یہ کمی اس وقت مزید ہولناک رخ اختیار کر لیتی ہے جب قابض اسرائیل جان بوجھ کر ہسپتالوں کو نشانہ بناتا ہے۔ صرف سات اکتوبر سنہ2023ء سے اب تک 38 ہسپتال، 96 ہیلتھ سنٹر تباہ یا غیر فعال کیے جا چکے ہیں جبکہ 197 ایمبولینس گاڑیاں بھی نشانہ بنائی گئیں۔ یہ اعداد و شمار حکومتی میڈیا آفس نے جاری کیے ہیں۔
اس سے پہلے بھی عالمی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں واضح کر چکی ہیں کہ غزہ کا صحتی نظام مکمل طور پر زمین بوس ہونے کے دہانے پر ہے۔ قابض اسرائیل کی مسلسل جارحیت، محاصرہ اور صحتی اداروں پر حملے نہ صرف مقامی سطح بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی کھلا چیلنج ہیں۔
امریکہ کی پشت پناہی میں قابض اسرائیل سات اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ پر بدترین نسل کشی مسلط کیے ہوئے ہے جس میں اب تک 66 ہزار 55 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور 1 لاکھ 68 ہزار 346 زخمی ہو چکے ہیں۔ تباہ کن بمباری نے غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے جبکہ قاتل محاصرے اور بھوک نے مزید 453 فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا جن میں 150 معصوم بچے شامل ہیں۔