غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )بین الاقوامی صحافتی تنظیم “رپورٹر ود آؤٹ بارڈر” نے قابض اسرائیلی فوج کے ہاتھوں صحافیوں پر ڈھائے جانے والے جنگی جرائم کے مزید ثبوت فراہم کرتے ہوئے ایک نئی شکایت عالمی فوجداری عدالت میں جمع کرا دی ہے۔
تنظیم نے اپنی شکایت میں دستاویزات پیش کیں جن کے مطابق مئی سنہ2024ء سے اگست سنہ2025ء کے درمیان کم از کم 30 صحافیوں کو براہ راست نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے 25 صحافی شہید ہوئے اور 5 زخمی ہوئے۔ تنظیم نے واضح کیا کہ بیشتر کو صرف اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے رہے تھے۔
تنظیم کی ڈائریکٹر برائے وکالت و معاونت انطوان برنار نے کہا کہ “اسرائیل کی جانب سے صحافیوں پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگا کر انہیں نشانہ بنانے کی روش صورتحال کو مزید سنگین بنا رہی ہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ “ہم اس امر پر شدید صدمے میں ہیں کہ مجرم مسلسل سزا سے بچ نکلتے ہیں کیونکہ عدالتی اور سیاسی سطح پر انصاف کی کوئی سنجیدہ خواہش موجود نہیں۔ ہم عالمی فوجداری عدالت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ دباؤ اور دھمکیوں سے مرعوب ہوئے بغیر اپنے مکمل اختیارات استعمال کرے اور ان جرائم کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لائے”۔
یہ شکایت غزہ پر جاری نسل کشی کے دوران جمع کرائی جانے والی پانچویں شکایت ہے۔ اس میں اسرائیلی جارحیت کی ان کارروائیوں کا بھی ذکر ہے جن میں صحافیوں کے گھروں پر بمباری کر کے ان کے اہل خانہ سمیت انہیں شہید کیا گیا۔ مثال کے طور پر 31 مئی سنہ2024ء کو اسرائیلی حملے میں صحافیہ علا الدحدوح (28 برس) شہید ہوئیں۔ اس حملے میں ان کے شوہر زخمی ہوئے اور ان کا ڈیڑھ سالہ بیٹا کرم بھی زخمی ہوا جبکہ شوہر کے چچا بھی شہید ہوئے۔
اسی طرح 6 اگست سنہ2024ء کو قابض اسرائیلی فوج نے صہیونی میزائل سے صحافی محمد عیسیٰ ابو سعیدہ (31 برس) کو ان کے اہل خانہ سمیت شہید کر دیا۔ ایک اور واقعے میں آزاد فوٹو جرنلسٹ فاطمہ حسونہ (25 برس) 16 اپریل سنہ2025ء کو اپنے گھر پر اسرائیلی بمباری میں شہید ہوئیں۔ اس حملے میں ان کی حاملہ بہن آلاء سمیت کئی اہل خانہ بھی شہید ہوئے۔
ایک اور دل دہلا دینے والے واقعے میں صحافی محمد جبر القریناوی (عمر 30 برس) اپنی اہلیہ اور تین بچوں سمیت اسرائیلی بمباری میں شہید ہوئے۔ 6 اکتوبر سنہ2024ء کو قابض فوج نے صحافی حسن حمد (19 برس) کے گھر کو نشانہ بنایا جس میں ان کا بھائی زخمی ہوا۔
تنظیم نے اپنی شکایت میں بتایا کہ اسرائیلی حملے بعض معروف ریستورانوں اور کیفے تک پہنچ گئے جہاں صحافی انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے جایا کرتے تھے۔ اسی طرح ان خیموں کو بھی نشانہ بنایا گیا جہاں نامہ نگار پناہ لیتے ہیں۔
مزید یہ کہ قابض اسرائیل نے اپنی مجرمانہ حکمتِ عملی کو بڑھا کر مجمع ناصر ہسپتال تک پھیلا دیا جہاں کئی صحافیوں کو “دوہری بمباری” کے ذریعے شہید کیا گیا۔ یہ طریقہ یہ ہے کہ پہلے ایک جگہ بمباری کی جاتی ہے اور پھر نامہ نگار جب واقعہ کور کرنے کے لیے وہاں پہنچتے ہیں تو دوبارہ بمباری کی جاتی ہے۔ اس دوران صحافی یحییٰ صبیح، مؤمن ابو العوف اور فوٹو جرنلسٹ احمد اللوح شہید ہوئے۔
تنظیم نے یہ بھی انکشاف کیا کہ قابض اسرائیل نے بڑے پیمانے پر جھوٹے دعوے اور پروپیگنڈہ مہم چلائی جس میں الجزیرہ اور الجزیرہ مباشر کے نامہ نگار انس الشریف اور حسام شباط اور صحافی مؤمن ابو العوف پر دہشت گردی کے الزامات لگائے گئے۔ ان الزامات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا بلکہ ان کی ساکھ اور پیشہ ورانہ دیانت کو مجروح کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔