Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

فلسطین پر قبضے کو دوام دینے کے لیے’ٹرمپ – نیتن یاھو پلان

غزہ ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور عالمی فوج داری عدالت کی طرف سے انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب پر اشتہاری قرار دیے گئے قابض اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے غزہ پر جاری تباہ کن جنگ کے خاتمے کے لیے ایک نام نہاد نئی اسکیم کا اعلان کیا ہے۔ اس برائے نام امن منصوبے کو “پرامن بقائے باہمی” ” تعمیر نو” اور “شہریوں کی مشکلات ختم کرنے” جیسے پرفریب نعروں کے ساتھ پیش کیا گیا، مگر باریک بینی سے دیکھنے پر یہ منصوبہ قابض اسرائیل کے مطالبات کی من و عن تکرار اور فلسطینی عوام کے وجود، ان کے جائز حقوق اور قومی مطالبات کی کھلی نفی کے سوا کچھ نہیں۔

ابتدا ہی سے یہ منصوبہ (جس کی بنیاد ٹونی بلیئر کی پرانی تجویز پر رکھی گئی) اس غلط مفروضے پر قائم ہے کہ اصل مسئلہ غزہ، اس کے عوام اور مزاحمت ہیں، نہ کہ خود قبضہ یا وہ جنگی جرائم اور اجتماعی قتل عام جو گذشتہ دو برسوں سے غزہ میں ڈھائے جا رہے ہیں۔ اس لیے یہ منصوبہ انصاف یا متوازن حل نہیں بلکہ پورے فلسطینی قضیے کو دفن کر کے فلسطینی عوام پر مکمل ہتھیار ڈالنے اور شکست قبول کرنے کی شکل مسلط کرنے کی ایک نئی سازش ہے جسے انسانی اور معاشی لبادے میں لپیٹا گیا ہے۔

منصوبے کی نمایاں خصوصیات

اس منصوبے کے مرکزی نکات میں 72 گھنٹے کے لیے عارضی فائر بندی شامل ہے، جس کے بدلے تمام اسرائیلی قیدی زندہ یا مردہ واپس کیے جائیں گے۔ ساتھ ہی قابض اسرائیل نے تقریباً دو ہزار فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا وعدہ کیا ہے جن میں 250 عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

سکیورٹی پہلو کے تحت منصوبہ اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اور دیگر فلسطینی جماعتوں کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنے اور ان کے ڈھانچے تباہ کرنے پر زور دیتا ہے۔ منصوبے میں فلسطین چھوڑ کر بیرون ملک منتقل ہونے والوں کو غزہ سے نکلنے کے لیے محفوظ راستہ دینے کی بات کی گئی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ یہ منصوبہ دراصل مزاحمت کے خاتمے اور فلسطینی قوت کو ہمیشہ کے لیے بے دست و پا کرنے کی کوشش ہے۔

اسی مقصد کے تحت منصوبے میں ایک عالمی ادارہ “کونسل برائے امن” تشکیل دینے کی تجویز ہے جس کی صدارت براہِ راست ٹرمپ کریں گے اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر ان کے ساتھ ہوں گے۔ یہ کونسل مبینہ طور پر ایک عبوری حکومت تشکیل دے گی اور تعمیر نو کے امور دیکھے گی۔

مزید برآں ٹرمپ کی اسکیم میں “بین الاقوامی استحکام فورس” کے نام سے غیر ملکی فوج تعینات کرنے کی تجویز ہے جو داخلی سکیورٹی کی نگران کرے گی اور فلسطینی پولیس کی تربیت کرے گی۔

انسانی امداد کے باب میں منصوبہ بڑے پیمانے پر امدادی سامان داخل کرنے کی بات کرتا ہے مگر یہ امداد صرف ان علاقوں میں دی جائے گی جنہیں “دہشت گردی سے پاک” قرار دیا جائے، یعنی انسانی ضرورت نہیں بلکہ سیاسی اور سکیورٹی شرائط پر امداد مشروط ہوگی۔

معاشی طور پر یہ منصوبہ غزہ کی تعمیر نو کو بڑے معاشی منصوبے سے جوڑتا ہے جس میں خصوصی اقتصادی زون اور غیر ملکی سرمایہ کاری شامل ہیں، مگر ریاست فلسطین کے قیام یا قبضے کے خاتمے کا کوئی ذکر نہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاھو دونوں نے صاف اعلان کیا کہ یہ منصوبہ فلسطینی ریاست کی اجازت نہیں دیتا۔

فلسطینی وجود کی نفی

سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ “کونسل برائے امن” کے ذریعے فلسطینی عوام سے ان کا حقِ خود ارادیت چھیننے اور ان پر بیرونی شرائط مسلط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ اقدام براہِ راست فلسطینی وجود کے انکار اور صہیونی ذہنیت کے تسلسل کی عکاسی کرتا ہے جو ابتدا ہی سے فلسطینی عوام کو مٹانے کے منصوبے پر کاربند ہے۔

خوراک اور دوا کی آڑ میں بلیک میلنگ

امداد کو “دہشت گردی سے پاک علاقوں” سے مشروط کرنا بنیادی انسانی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ خوراک اور دوائی کو سیاسی ہتھیار بنانا اجتماعی سزا کا حربہ ہے اور قابض اسرائیل کے مجرمانہ محاصرے اور بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی کا تسلسل ہے۔

ہتھیار ڈالنے کا تقاضا

منصوبے کا سب سے بڑا ستون مزاحمت کے ہتھیار چھیننا ہے، جو دراصل قبضے کے تسلسل کو مزید آسان بنانے کی شرط ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہتھیار کس سے چھینے جائیں؟ اس قابض قوت سے جو نسل کشی کر رہی ہے یا ان فلسطینیوں سے جنہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا؟

فلسطینی عوام کی شمولیت سے انکار

اس منصوبے کی تیاری میں کسی فلسطینی فریق کو شامل نہیں کیا گیا۔ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ حماس کو حکومت کا حصہ بنایا جائے گا نہ ہی فلسطینی اتھارٹی کو کوئی کردار دیا جائے گا جب تک وہ “اصلاحات” نہ کرے۔ یعنی فلسطینیوں کو اپنے مستقبل کے فیصلوں سے ہی بے دخل کر دیا گیا ہے۔

قابض اسرائیل اور نیتن یاھو کی سیاسی بقا

یہ منصوبہ قابض اسرائیل کو دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی تنہائی سے نکالنے اور مجرمِ جنگ نیتن یاھو کو بچانے کا ایک حربہ ہے۔ قابض اسرائیل پر جب عالمی سطح پر جنگی جرائم کے مقدمات اور عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے تو یہ منصوبہ اسے نئی زندگی دے کر اس کی مجرمانہ پالیسیوں کو بچانے کا ذریعہ بن گیا ہے۔

حقیقی حل

تجربہ بتاتا ہے کہ ایسے درجنوں منصوبے ماضی میں ناکام ہوئے ہیں۔ اصل اور پائیدار حل صرف اس میں ہے کہ فلسطینی خود اپنے فیصلے کریں، اندرونی اتحاد قائم کریں اور دنیا سے یہ مطالبہ کریں کہ قابض اسرائیل کا قبضہ ختم کیا جائے، محاصرہ توڑا جائے، جنگی جرائم پر مقدمہ چلایا جائے اور غزہ سمیت پورے فلسطین پر مکمل خودمختاری بحال کی جائے۔ یہی راستہ عزت، وقار اور بقا کی ضمانت ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan