Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ میں جارحیت روکنا اولین ترجیح :حسام بدران

غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سیاسی بیورو کے رکن حسام بدران نے کہا ہے کہ فلسطینی مزاحمت ہر اُس خیال اور تجویز کے لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کررہی ہے جس کا مقصد غزہ میں قتل عام روکنا اور غزہ میں جاری نسل کشی کا خاتمہ ہو، تاہم یہ سب کچھ ہمارے اصولی مؤقف اور قومی مطالبات پر سمجھوتے کے بغیر ہوگا۔

اتوار کو ایک ٹی وی انٹرویو میں بدران نے واضح کیا کہ حماس کو اب تک قطر اور مصر کے ثالثوں کے ذریعے کوئی باضابطہ تجویز موصول نہیں ہوئی جس میں فائر بندی یا غزہ میں جنگ کے اختتام کی بات کی گئی ہو۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا میں جو کچھ سامنے آ رہا ہے اس پر ہم باضابطہ جواب نہیں دے سکتے، کیونکہ ہمارے مذاکرات کے حوالے سے واضح اصول اور بنیادیں ہیں۔

بدران نے بتایا کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکہ قابض اسرائیل کے ساتھ مل کر مختلف تجاویز اور افکار سامنے لا رہا ہے، لیکن انہیں حتمی شکل دے کر ثالثوں کے ذریعے حماس کو پہنچانے میں وقت لگتا ہے۔ ابھی تک جو باتیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ یا دیگر کے بیانات میں سامنے آئیں وہ صرف میڈیا تک محدود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے مطالبات مکمل طور پر قومی ہیں، ان پر فلسطینی دھڑوں کے ساتھ مشاورت ہوتی ہے اور ہم جنگ کے خاتمے کے خواہاں ہیں۔ قابض اسرائیل سکیورٹی اور ہتھیاروں کے بہانے کو نسل کشی جاری رکھنے کا جواز بناتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نہتے فلسطینیوں کے خلاف روزانہ وحشیانہ جرائم کیے جا رہے ہیں۔

بدران نے زور دے کر کہا کہ حماس کے کوئی ذاتی مطالبات نہیں، نہ قیادت کے لیے نہ کسی اور چیز کے لیے۔ ہم صرف اپنے عوام کی خاطر مذاکرات کر رہے ہیں، خاص طور پر غزہ کے اُن شہریوں کے لیے جو روزانہ میڈیا کے سامنے اجتماعی قتل عام اور بربریت کا سامنا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل کے خلاف مزاحمت ہمارا جائز اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق حق ہے۔ ہم نے ایک عظیم اور درندہ صفت عسکری مشینری کا مقابلہ اپنے مجاہدین کے سادہ مگر مؤثر ہتھیاروں سے کیا ہے۔

حماس کے اس رہنما نے زور دیا کہ جنگ کا واضح اور مکمل خاتمہ ہونا چاہیے اور قابض اسرائیلی فوج کو غزہ سے واپس جانا ہوگا۔

بدران نے کہا کہ فلسطینی عوام دنیا کے سب سے باشعور، مہذب اور سیاسی طور پر بالغ قوموں میں سے ہیں۔ ہمیں کسی بیرونی سرپرستی یا وصایت کی ضرورت نہیں، خاص طور پر اس تاریخی اور قربانیوں سے لبریز جدوجہد کے بعد۔ فلسطین کے معاملات فلسطینی خود سنبھالیں گے اور یہی ایک درست راستہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی بیرونی طاقت کو یہ حق نہیں کہ وہ فلسطینی عوام پر اپنی مرضی تھوپے کہ وہ کس طرح اپنی قیادت منتخب کریں یا اپنے امور کو چلائیں۔

سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے بارے میں بدران نے دوٹوک کہا کہ وہ فلسطینی عوام کے لیے ایک ناپسندیدہ اور نحوست کی علامت شخصیت ہیں۔ اُن کا کردار، خواہ عراق کی جنگ ہو یا دیگر خطے کے تنازعات، ہمیشہ مجرمانہ اور تباہ کن رہا ہے۔ بلیئر جیسی شخصیت کسی حل کا راستہ نہیں کھول سکتی بلکہ وہ خود جنگی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہونے کے لائق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ ٹونی بلیئر شیطان کے بھائی کی مانند ہے جس نے نہ فلسطین کے لیے بھلائی کی نہ عرب اور مسلمانوں کے لیے۔ عراق کی جنگ سے لے کر آج تک اس کے کردار نے صرف خونریزی اور بربادی کو جنم دیا۔

بدران نے زور دے کر کہا کہ فلسطینی عوام اپنی قیادت اور اپنے معاملات خود چلانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں فلسطینی ماہرین، قائدین اور باصلاحیت افراد موجود ہیں جو اپنے عوام کو آگے بڑھانے کے لیے کافی ہیں۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات آخری مرحلے میں ہیں اور ممکنہ معاہدہ خطے میں بڑے امن کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan