Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

ماہرین: عالمی عدالت غزہ میں بھوک کو ہتھیار بنانے پر فوری تحقیق کرے

قانونی ماہرین (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )  اور اساتذہ نے زور دیا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے طریقہ کار کو فعال کیا جائے تاکہ سلامتی کونسل کی مفلوج حیثیت پر قابو پایا جا سکے اور فوری طور پر عالمی فوجداری عدالت میں یہ تحقیق کھولی جائے کہ کس طرح قابض اسرائیل نے غزہ کے نہتے عوام کے خلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔

ماہرین نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اندر ویٹو کے تسلط کو محدود کرنے کی ضرورت ہے، قانون کے طلبہ کو شہریوں کے تحفظ سے متعلق آگاہی دی جائے اور عالمی سطح پر دباؤ بڑھایا جائے تاکہ انسانی امداد کو پائیدار اور محفوظ انداز میں غزہ پہنچایا جا سکے۔

یہ سفارشات بدھ کے روز مرکز الزيتونہ برائے مطالعات و مشاورت اور شاهد فاؤنڈیشن برائے انسانی حقوق و جمہوریت کے باہمی تعاون سے منعقدہ ایک آن لائن سیمینار میں سامنے آئیں۔ سیمینار کا عنوان “غزہ کے عوام کو بھوکا رکھنا: اسرائیلی جرم اور عالمی ذمہ داری”۔ تھا۔ اس میں ممتاز قانونی ماہرین اور اساتذہ نے شرکت کی۔

مرکز الزيتونہ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محسن محمد صالح نے سیمینار کی صدارت کی۔ انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل انسانی تاریخ کے بدترین مظالم میں سے ایک ظلم کر رہا ہے، وہ غزہ کے نہتے شہریوں کو بھوکا مارنے کی منظم پالیسی اپنا رہا ہے، اور یہ کام اس قدر منصوبہ بندی سے کیا جا رہا ہے کہ اس میں جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت تک کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس اقدام کو “مکمل جنگی جرم” قرار دیا جو پوری دنیا کے سامنے ہو رہا ہے۔

ڈاکٹر صالح نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین واضح ہیں کہ بھوک کو ہتھیار بنانا جنگی جرم اور اجتماعی نسل کشی ہے لیکن غزہ کی صورتحال یہ ظاہر کرتی ہے کہ عالمی سیاسی قوتیں قانون پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جرم اس وقت تک جاری نہیں رہ سکتا جب تک عالمی برادری خاموشی اور بے عملی اختیار کرے۔

قانونی پہلو

سیمینار کے دوران “غزہ کی انسانی صورتحال اور بھوک کو ہتھیار بنانے کا قانونی جائزہ” کے عنوان سے بات کرتے ہوئے وکیل، قانونی ماہر اور استاد ڈاکٹر عادل یمین نے کہا کہ “غزہ کی صورتحال آج کی دنیا کے سنگین ترین انسانی بحرانوں میں سے ہے۔ نہتے عوام محاصرے، قتل عام، نسل کشی کی کوششوں، خوراک، پانی اور ادویات کی بندش کے باعث بدترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں”۔

ڈاکٹر یمین نے کہا کہ محاصرہ اور بھوک بین الاقوامی قوانین کے مطابق صریح جنگی جرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی فوجداری عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ ان جنگی مجرموں کو کٹہرے میں لائے خواہ قابض اسرائیل نے روم اسٹیچوٹ پر دستخط نہ کیے ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سان ریمو اصول اور “انسانی بنیادوں پر جوابی اقدامات” کی تھیوری کے تحت ریاستیں اس بات کی مجاز ہیں کہ وہ قابض اسرائیل کی اجازت کے بغیر بھی غزہ کو انسانی امداد فراہم کریں۔

ڈاکٹر یمین کے مطابق اصل مسئلہ قوانین کی کمی نہیں بلکہ عالمی سطح پر عملدرآمد کی سیاسی مرضی کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنیوا کنونشنز اور روم اسٹیچوٹ صاف الفاظ میں بھوک کو جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرم قرار دیتے ہیں۔ مگر دنیا کی خاموشی قانون کو بے وقعت اور مجرموں کو مزید جری کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس واضح کرتی ہیں کہ غزہ کے عوام کو جان بوجھ کر خوراک اور دواؤں سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ یہ عالمی برادری کے لیے ایک تاریخی امتحان ہے کہ آیا وہ نسل کشی کو روکنے کی ذمہ داری نبھاتی ہے یا خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔

انسانی امداد: قانونی فرض یا سیاسی ہتھیار؟

“انسانی امداد: قانونی فرض یا سیاسی ہتھیار” کے عنوان سے اپنی گفتگو میں قانون دان اور بین الاقوامی قانون کے استاد ڈاکٹر محمد موسیٰ نے کہا کہ غزہ کا بحران بین الاقوامی قانون کی بنیادی کمزوری اور نوآبادیاتی طاقتوں کے تسلط کو بے نقاب کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو ایک ایسے قانونی نظام کی ضرورت ہے جو طاقتوروں کے بجائے محکوم اقوام کی حفاظت کرے۔

ڈاکٹر موسیٰ نے کہا کہ “غزہ کے عوام کو منظم طریقے سے بھوکا مارنا جنیوا کنونشنز کے مطابق ایک ممنوعہ جنگی جرم ہے۔ یہ بعض صورتوں میں انسانیت کے خلاف جرم یا حتیٰ کہ نسل کشی بھی قرار پا سکتا ہے، اگر اس کے پیچھے تباہ کن ارادہ ثابت ہو جائے۔”

انہوں نے زور دیا کہ عالمی برادری کو فوری قدم اٹھانا ہو گا تاکہ قابض اسرائیل کے یہ جرائم رُک سکیں اور غزہ کے عوام کی زندگی بچائی جا سکے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan