ڈنمارک(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) کے پنشن فنڈ “اکیڈیمیکر پینسیون” نے اعلان کیا ہے کہ وہ قابض اسرائیل میں اپنی تمام سرمایہ کاری ختم کر رہا ہے۔ اس فیصلے میں صہیونی حکومت کے زیر انتظام کمپنیوں کو بھی سرمایہ کاری کے دائرے سے خارج کر دیا گیا ہے۔ وجہ کے طور پر غزہ پر جاری صہیونی جنگ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں ناجائز صہیونی بستیوں کے مسلسل پھیلاؤ کو بیان کیا گیا۔
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں دو کھرب ڈالر مالیت کے نارویجن خودمختار فنڈ نے بھی قابض اسرائیل سے اپنی سرمایہ کاری واپس لے لی تھی۔ یوں ڈنمارک کا یہ فیصلہ یورپ میں سرمایہ کاری کی سطح پر قابض اسرائیل کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت کا تازہ ترین اظہار ہے۔
اکیڈیمیکر پینسیون جس کے اثاثوں کی مالیت 157 ارب ڈنمارکی کرون (24.77 ارب ڈالر) ہے اور جو ڈنمارک کے اساتذہ اور پروفیسرز کے پنشن فنڈز کا انتظام کرتا ہے، نے وضاحت کی کہ قابض اسرائیل کا جنگی طرز عمل اور ناجائز قبضہ عالمی انسانی اصولوں سے متصادم ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق اس فنڈ کے چیف ایگزیکٹو جینز مونش ہولسٹ نے کہا کہ “یہ فیصلہ قابض اسرائیل کی انسانی حقوق کو محفوظ رکھنے کی ناکامی کے تجزیے پر مبنی ہے۔”
قابض اسرائیل کو غزہ پر اس کی خونریز جنگ کے سبب دنیا بھر میں شدید مذمت کا سامنا ہے۔ مقامی طبی حکام کے مطابق اس جارحیت کے نتیجے میں اب تک 65 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جبکہ غزہ قحط اور بھوک کے کڑے امتحان سے گزر رہا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ برس اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ فلسطینی علاقوں پر قابض اسرائیل کا تسلط اور وہاں قائم کی جانے والی صہیونی بستیاں غیر قانونی ہیں اور قابض اسرائیل کو فوراً ان علاقوں سے نکل جانا چاہیے۔ تاہم قابض اسرائیل نے اس فیصلے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے “بنیادی طور پر غلط” قرار دیا تھا۔