Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

فلسطین کو تسلیم کرنے کے اعلانات کھوکھلی علامتیں :برغوثی

غز ہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )  فلسطینی قومی اقدام کے سربراہ مصطفیٰ برغوثی نے واضح کیا ہے کہ مغربی دنیا کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا محض ایک علامتی قدم ہے جو اس حقیقت کو نہیں بدلتا کہ فلسطینی عوام کو ایسی حقیقی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو قابض اسرائیل کی جاری نسل کشی کو روک سکیں، جو گذشتہ دو برسوں سے غزہ میں جاری ہے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع اپنے مضمون میں برغوثی نے کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا اور پرتگال کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے کا حوالہ دیا جو اقوام متحدہ میں دو ریاستی حل سے متعلق اجلاس سے قبل سامنے آیا۔ مزید کئی ملک بھی یہ اعلان کرنے والے ہیں جس کے بعد تقریباً 150 ممالک باضابطہ طور پر فلسطین کو تسلیم کر چکے ہوں گے۔

برغوثی نے کہا کہ اگرچہ وہ ان اعترافات کا خیر مقدم کرتے ہیں کیونکہ قابض اسرائیل نے دہائیوں سے فلسطینیوں کو حق خودارادیت سے محروم رکھا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ قابض اسرائیل کی توسیع پسندانہ بستیاں عملاً فلسطینی ریاست کو دفن کر رہی ہیں جیسا کہ قابض اسرائیل کے وزیر خزانہ بزلئیل سموٹریچ نے کچھ عرصہ قبل واضح کیا تھا۔

کھوکھلی حقیقت

برغوثی نے کہا کہ فلسطین کو تسلیم کرنا محض ایک ’’کھوکھلی علامت‘‘ اور بدترین صورت میں یہ دنیا کی توجہ ہٹانے کا حربہ ہے تاکہ غزہ پر مسلط جنگ، قحط اور تقریباً بیس لاکھ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی پر پردہ ڈالا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کے ہر اعتراف کے ساتھ ساتھ لازم ہے کہ قابض اسرائیل کو اس کی غیر قانونی اور تباہ کن پالیسیوں پر جوابدہ بنایا جائے۔

انہوں نے لکھا کہ وہ مغربی کنارے سے یہ مضمون تحریر کر رہے ہیں جہاں قابض اسرائیل مسلسل بستیاں پھیلا کر فلسطینی ریاست کے قیام کو عملا روک رہا ہے۔ دو ریاستی حل کی بات کرتے وقت اس تلخ حقیقت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ قابض اسرائیل نے فلسطینیوں پر روز بروز ایک ہی ریاست اور نسلی امتیاز کا نظام مسلط کر دیا ہے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ اگست میں فرانس اور دیگر ملکوں کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے کے اعلان کے جواب میں قابض اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس کے قریب ای ون نامی علاقے میں نئی بستیوں کی توسیع کی منظوری دی۔ اس منصوبے سے مغربی کنارے کو دو حصوں میں کاٹ دیا جائے گا اور وہ خطہ جو فلسطینی ریاست کا دل ہونا چاہیے ہمیشہ کے لیے چھینا جا رہا ہے۔

برغوثی نے کہا کہ ای ون کی منظوری دائیں بازو کی انتہا پسند حکومت کی غیر قانونی پالیسیوں کا تسلسل ہے جس نے اس بہار میں مغربی کنارے میں 22 نئی بستیوں کی منظوری دی۔ بزلئیل سموٹریچ اور قابض اسرائیل کے وزیر دفاع یسرائیل کاٹز کے مشترکہ بیان کے مطابق یہ سب طویل المیعاد حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد فلسطینی ریاست کے قیام کو ہمیشہ کے لیے روکنا اور قابض اسرائیل کی گرفت کو مستحکم کرنا ہے۔

قابض اسرائیل کی جابرانہ پالیسی

برغوثی نے یاد دلایا کہ قابض اسرائیل نے 45 برس قبل مشرقی بیت المقدس کو غیر قانونی طور پر ضم کر کے بستیوں کے حصار میں لپیٹ دیا جس سے اسے مغربی کنارے سے کاٹ دیا گیا۔ غزہ کو اکتوبر سنہ2023ء سے مسمار کر کے رہنے کے قابل نہ چھوڑنے کی پالیسی کا مقصد بھی فلسطینیوں کو جنوبی غزہ کی تنگ و تاریک جگہوں میں دھکیل کر بالآخر جبری ہجرت پر مجبور کرنا ہے جیسا کہ بنجمن نیتن یاھو نے مئی میں خود کہا تھا۔

انہوں نے زور دیا کہ فلسطین کے اعتراف یا تجاویز پر مشتمل کسی دستاویز کی اشاعت سے حقیقت نہیں بدلے گی۔ ضروری ہے کہ عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔

حقیقی اقدامات کی ضرورت

برغوثی کے مطابق عالمی برادری کی پہلی ذمہ داری یہ ہونی چاہیے کہ وہ غزہ میں جاری قابض اسرائیل کی نسل کشی کو روکے جسے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور کئی ماہرین واضح طور پر اجتماعی نسل کشی قرار دے چکے ہیں۔ ساتھ ہی فلسطینیوں کے خلاف جاری نسلی تطہیر کو روکا جائے۔

انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل پر سنجیدہ دباؤ ڈالا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنی نسل پرستانہ پالیسیوں کو بدلنے پر مجبور ہو۔ اس میں اس بدنام قانون کو ختم کرنا شامل ہے جس کے تحت صرف یہودی قوم کو تاریخی فلسطین میں حق خودارادیت حاصل ہے۔

برغوثی نے کہا کہ مغربی حکومتیں بالخصوص قابض اسرائیل کی حامی ریاستیں اس پر اقتصادی پابندیاں لگائیں اور اسلحہ کی فراہمی پر مکمل پابندی عائد کریں۔ یہی مطالبہ انسانی حقوق کی تنظیمیں برسوں سے کر رہی ہیں کیونکہ قابض اسرائیل کی بستیاں اور دیگر جرائم مسلسل بین الاقوامی قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔

ان کے مطابق فلسطینیوں کی آزادی کو قابض اسرائیل کی منظوری سے مشروط نہیں کیا جانا چاہیے اور سب کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ طاقت کا پلڑا قابض اسرائیل کے حق میں ہے۔ سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ فلسطینی اور قابض اسرائیل کو برابر سمجھا جائے جیسے دونوں فریق ایک دوسرے کی زمین پر قبضہ کر رہے ہوں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آٹھ دہائیوں سے قابض اسرائیل ہی فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے جلاوطن اور بے دخل کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کروڑوں فلسطینی بغیر ریاست کے، محکوم اور مظلوم ہیں جبکہ قابض اسرائیل خطے کی ایٹمی طاقت ہے۔ یہ وہ عدم توازن ہے جسے درست کرنے کے لیے دنیا کو نیا ماڈل اپنانا ہوگا جیسا کہ جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خلاف عالمی حمایت نے آزادی کی راہیں کھولی تھیں۔

برغوثی نے بتایا کہ آج 7.4 ملین فلسطینی قابض اسرائیل کے تسلط میں رہتے ہیں جبکہ 7.2 ملین یہودی قابض اسرائیلی آبادکار ہیں۔ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن نے کئی دہائیاں قبل زمین کی تقسیم قبول کر لی تھی حالانکہ اس کا مطلب اقوام متحدہ کے سنہ1947ء کے فیصلے کے مقابلے میں آدھی سے زیادہ زمین سے دستبرداری تھا۔ یہ ایک بڑا سمجھوتہ تھا۔ پی ایل او نے قابض اسرائیل کو دو بار تسلیم کیا، سنہ1988ء اور سنہ1993ء میں۔ مگر قابض اسرائیل نے آج تک فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم نہیں کیا اور اپنی ہر حکومت میں نسلی امتیاز کو گہرا کرنے میں مصروف رہا۔

برغوثی نے آخر میں کہا کہ عالمی برادری کو اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرنا ہوگا۔ جب تک قابض اسرائیل کے قائم کردہ نسلی امتیاز کے نظام کو ختم نہیں کیا جاتا، تب تک حقیقی اور پائیدار امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan