برسلز (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے یورپی موقف میں اس بڑی تبدیلی پر روشنی ڈالی ہے جس کے تحت یورپی یونین قابض اسرائیل کے خلاف ممکنہ پابندیوں پر غور کر رہی ہے۔ یہ تبدیلی اس وقت سامنے آئی جب یورپی یونین نے واضح کیا کہ عالمی فوج داری عدالت کو مطلوب بنجمن نیتن یاھو کی حکومت تمام سرخ لکیروں کو پار کر چکی ہے اور اس نے یورپی یونین کے ساتھ اپنے تعلقات کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔
یورپی امور کی سربراہ لیسا موسیول نے کہا کہ یورپی کمیشن کی صدر اورسلا فان ڈیر لائن، جو ابتداء میں قابض اسرائیل پر کسی سخت تنقید سے گریزاں رہتی تھیں، انہوں نے گذشتہ بدھ یورپی یونین کی اسٹیٹ آف دی یونین تقریر میں لب و لہجہ بدلتے ہوئے اعتراف کیا کہ “غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے” اور یہ کہ یورپی یونین کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے قابض اسرائیل کو روکنا ہوگا۔
یورپی کمیشن نے اس سلسلے میں کئی تجاویز پیش کی ہیں جن میں قابض اسرائیل کے ساتھ دو طرفہ تعاون اور تجارتی مراعات کو معطل کرنا اور بالآخر براہ راست پابندیاں عائد کرنا شامل ہے۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے مطابق یہ تبدیلی بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ، یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کی آوازوں، اور یورپ کی سڑکوں پر نکلنے والے لاکھوں احتجاجی مظاہروں کا نتیجہ ہے جو قابض اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خود یورپی کمیشن کے اندر بھی اسرائیلی جرائم پر غصہ بڑھ رہا ہے۔
یہ تبدیلی اس عمومی احساس کی بھی عکاسی کرتی ہے کہ قابض اسرائیل کی مسلسل قتل و غارت اور غزہ میں فلسطینی عوام کو بھوک سے مارنے کی کوششوں پر اب مزید خاموشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔
مجوزہ اقدامات
یورپی کمیشن نے فوری طور پر قابض اسرائیل کے لیے ہر قسم کی مالی معاونت معطل کر دی ہے، جس میں 32 ملین یورو کی مشترکہ منصوبوں کے لیے سنہ2027ء تک کی فنڈنگ بھی شامل ہے۔
تاہم بڑے پیمانے کی پابندیوں کے لیے یورپی ممالک کی متفقہ رائے ضروری ہوگی۔ مثال کے طور پر دائیں بازو کے انتہا پسند وزراء ایتمار بن گویر اور بزلئیل سموٹریچ سمیت مغربی کنارے میں آبادکاری کے ذمہ دار اسرائیلی رہنماؤں پر پابندی لگانے کے لیے تمام 27 ممالک کی رضامندی لازمی ہے۔ ایسے میں ہنگری، جرمنی، چیک ریپبلک اور اٹلی جیسے ممالک اپنی حمایت میں اسرائیل کے حق میں ویٹو استعمال کر سکتے ہیں۔
البتہ یورپی ممالک اس بات پر اتفاق کر سکتے ہیں کہ انفرادی آبادکاروں اور شدت پسند صہیونی تنظیموں پر پابندیاں لگائی جائیں جو فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
اقتصادی پابندیاں
قابض اسرائیل کو دی جانے والی تجارتی مراعات معطل کرنے کے لیے صرف اہل اکثریت یعنی 27 میں سے 15 ممالک کی تائید درکار ہوگی جو کم از کم یورپی یونین کی 65 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتے ہوں۔ اس کے لیے جرمنی یا اٹلی کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ چونکہ قابض اسرائیل اپنی معیشت کے بڑے حصے کے لیے یورپی تجارت پر انحصار کرتا ہے، اس لیے ایسی پابندی اس کی معیشت پر تباہ کن اثرات ڈال سکتی ہے۔
فی الحال فیصلہ یورپی دارالحکومتوں کے ہاتھ میں ہے۔ یورپی یونین کے داخلی جائزے کے مطابق قابض اسرائیل انسانی حقوق کے بنیادی تقاضوں کی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے جو دونوں کے تعلقات کی بنیاد ہیں، جبکہ اقوام متحدہ کی ایک تحقیقاتی کمیٹی نے حال ہی میں واضح کیا ہے کہ قابض اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی ہے۔
اگر یورپی یونین ایک بار پھر کسی عملی اقدام میں ناکام رہا تو وہ قابض اسرائیل کو کھلی چھوٹ دیتا رہے گا تاکہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کی زندگیاں اجاڑتا رہے اور مغربی کنارے پر اپنے قبضے کو مزید مستحکم کرتا رہے۔