غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر نے کہا ہے کہ ایک ملین سے زیادہ فلسطینی اب بھی غزہ شہر اور شمالی علاقے میں اپنی سرزمین اور گھروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ قابض اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور جاری اجتماعی نسل کشی کے باوجود جنوبی علاقے کی طرف ہجرت کرنے سے انکاری ہیں۔ یہ مسلسل جبری ہجرت کی مہم عالمی قوانین اور تمام انسانی مواثیق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
دفتر نے وضاحت کی کہ غزہ شہر اور شمالی علاقے کی مجموعی آبادی 13 لاکھ سے زیادہ ہے جن میں 3 لاکھ 98 ہزار سے زائد شمالی غزہ کے رہائشی ہیں۔ ان میں سے بیشتر مغربی علاقے کی طرف زبردستی دھکیلے گئے ہیں، جبکہ 9 لاکھ 14 ہزار سے زیادہ غزہ شہر کے شہری ہیں۔ ان میں سے تقریباً 3 لاکھ 50 ہزار کو مشرقی محلوں سے نکال کر وسطی اور مغربی علاقوں میں دھکیلا گیا ہے۔
سرکاری میڈیا دفتر کے مطابق گذشتہ دنوں کے دوران صہیونی حملوں میں تیزی آنے سے تقریباً ایک لاکھ 90 ہزار شہری اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور ہوئے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک الٹی لہر بھی دیکھی گئی، جس میں 15 ہزار سے زیادہ افراد اپنی اصل بستیوں میں واپس آئے تاکہ اپنے گھروں کا سامان بچا سکیں کیونکہ جنوب میں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی ناپید ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ خان یونس اور رفح کی المواصی نامی پٹی جہاں اس وقت 8 لاکھ کے قریب لوگ مقیم ہیں اور جسے قابض اسرائیل جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے ہوئے “محفوظ انسانی علاقہ” قرار دیتا ہے، حقیقت میں موت کا جال ہے۔ یہاں اب تک 109 سے زائد فضائی حملے ہوئے ہیں جن میں 2 ہزار سے زیادہ شہری شہید ہوئے۔ یہ علاقہ ہسپتال، پانی، خوراک، بجلی، تعلیم اور پناہ جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہے اور زندگی گزارنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
غزہ کے میڈیا دفتر نے کہا کہ قابض اسرائیل نے جو نام نہاد “پناہ گزین علاقے” مختص کیے ہیں وہ صرف 12 فیصد رقبے پر محیط ہیں اور ان میں 17 لاکھ سے زائد انسانوں کو ٹھونسنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ دراصل “ارتکاز کیمپ” قائم کرنے کا منصوبہ ہے تاکہ شمالی غزہ اور غزہ شہر کو اس کے باسیوں سے خالی کرا لیا جائے۔ دفتر نے اس منصوبے کو مکمل جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف سنگین جریمہ قرار دیا جو عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔
دفتر نے زور دے کر کہا کہ قابض اسرائیل کی اجتماعی نسل کشی اور جبری ہجرت کی یہ پالیسی ناقابل قبول ہے اور عالمی برادری کی خاموشی اور ذمہ داریوں سے فرار افسوسناک اور مجرمانہ غفلت ہے۔
دفتر نے قابض اسرائیل اور اس کے سب سے بڑے سرپرست امریکہ سمیت ان تمام ممالک کو بھی شریک جرم قرار دیا جو فلسطینی عوام کے خلاف اس نسل کشی میں ملوث ہیں۔ اس نے عالمی برادری، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی عدالتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری اور سنجیدہ قدم اٹھائیں، ان جرائم کو روکیں، قابض ریاست کے رہنماؤں کو عالمی عدالتوں میں کٹہرے میں لائیں اور فلسطینی عوام کے حقِ بقا اور تحفظ کی ضمانت دیں۔
منگل کو قابض اسرائیل نے شہر غزہ میں اپنی زمینی کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ اس مقصد کے لیے تین فوجی ڈویژنوں 98، 162 اور 36 کو تعینات کیا گیا ہے جو وحشیانہ فضائی بمباری اور مسلسل حملوں کے سائے میں زمینی پیش قدمی کر رہے ہیں۔
قابض اسرائیل کے وزیر اعظم نے اعتراف کیا ہے کہ یہ “عربات جدعون 2” نامی فوجی کارروائی کے زمینی مرحلے کا آغاز ہے۔
وزارتِ صحت کے مطابق قابض اسرائیل کی اجتماعی نسل کشی مہم میں شہداء کی تعداد 64 ہزار 964 تک پہنچ گئی ہے جبکہ زخمیوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 65 ہزار 312 ہے۔ صرف گذشتہ 24 گھنٹوں میں 59 فلسطینی شہید اور 386 زخمی ہوئے۔ محاصرہ زدہ غزہ میں امداد کے انتظار میں کھڑے فلسطینیوں پر حملوں کے نتیجے میں 2 ہزار 497 شہداء اور 18 ہزار 294 زخمی ہو چکے ہیں۔