مرکز برائے سیاسی و ترقیاتی مطالعات (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) نے ایک نئی تحقیق جاری کی ہے جس کا عنوان “غزہ کے ساتھ یکجہتی: مغرب میں عوامی تحریک بمقابلہ عرب و اسلامی دنیا میں غیر حاضری – جہات اور مواقع کا مطالعہ” ہے۔ اس تحقیق میں فلسطین کے حق میں دنیا بھر خصوصاً مغرب میں ہونے والی عوامی سرگرمیوں اور عرب و اسلامی دنیا میں اس حوالے سے کمزور کردار کے درمیان واضح فرق کو اجاگر کیا گیا۔
تحقیق کے مطابق قابض اسرائیل کی غزہ پر حالیہ جنگ جس میں قتل عام، وسیع پیمانے پر تباہی، قحط اور اجتماعی جلاوطنی شامل ہیں نے عالمی سیاسی اور انسانی ضمیر کا کڑا امتحان لیا۔
مطالعے میں بتایا گیا کہ یورپ اور لاطینی امریکہ کے شہروں میں لاکھوں افراد نے سڑکوں پر نکل کر فلسطین کے حق میں آواز بلند کی جس کے نتیجے میں بولیویا اور چلی جیسے ممالک نے قابض اسرائیل سے اپنے تعلقات ختم کر دیے۔ اس کے برعکس عرب و اسلامی دنیا میں عوامی تحریک سیاسی و سکیورٹی رکاوٹوں، معاشی بحرانوں اور تنظیمی کمزوریوں کی زنجیروں میں جکڑی رہی۔
تحقیق میں یورپ میں جنگ کے آغاز سے اب تک 42 ہزار سے زائد عوامی سرگرمیوں کا ریکارڈ کیا گیا جن میں لندن، پیرس، برلن اور میڈرڈ کے ملین مارچ بھی شامل ہیں۔ ان عوامی دباؤ کے نتیجے میں بعض ممالک نے قابض اسرائیل سے تعلقات توڑ دیے اور عوامی تحریک عدالتوں تک جا پہنچی جہاں جنگی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے۔
اس کے برعکس عرب و اسلامی دنیا میں عوامی سرگرمی کی غیر موجودگی نمایاں رہی۔ اردن اور بحرین جیسے ممالک میں احتجاج کو سکیورٹی کریک ڈاؤن اور گرفتاریوں سے کچلا گیا۔ ساتھ ہی مہنگائی اور معاشی مشکلات نے عوام کی شرکت کی صلاحیت کو کمزور کر دیا۔
اس کے علاوہ میڈیا پر قدغنیں لگائی گئیں، غزہ کی اصل صورتحال کو مسخ کر کے پیش کیا گیا، تصاویر اور مناظر کو روکا گیا اور علاقائی و سرحد پار شہری نیٹ ورکس کی کمی بھی نمایاں رہی۔
تحقیق میں کہا گیا کہ عرب و اسلامی دنیا میں عوامی بیداری کو دوبارہ زندہ کرنا ناممکن نہیں بلکہ اس کے لیے جدید ذرائع جیسے ڈیجیٹل میڈیا، آزادانہ دستاویزی کام، علامتی و عملی معاشی بائیکاٹ، سرحد پار سول سوسائٹی کے اقدامات اور مغرب میں عرب و اسلامی کمیونٹی کے کردار کو مؤثر انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مرکز نے اس بات پر زور دیا کہ مغرب میں مضبوط عوامی تحریک اور عرب و اسلامی دنیا میں غیر موجودگی دراصل ساختی رکاوٹوں کا نتیجہ ہے تاہم جدید وسائل کے بہتر استعمال اور اخلاقی یکجہتی کو سیاسی، اقتصادی اور میڈیا کے عملی اقدامات سے جوڑنے کے ذریعے اس خلا کو پُر کیا جا سکتا ہے۔
مرکز نے واضح کیا کہ عرب و اسلامی عوامی تحریک کو دوبارہ فعال بنانا اس بات کی بنیادی شرط ہے کہ مسئلہ فلسطین کو ایک بار پھر امت کا مرکزی اور وحدت بخش مسئلہ بنایا جا سکے۔