Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

فلسطینی نکبہ کی المناک یادوں کی یادگار ’الشاطی پناہ گزین جسے ایک بار پھر ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا

غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )غزہ میں ساحل سمندر کے چند ہی قدم فاصلے پر واقع غزہ کا مشہور “الشاطی کیمپ” آج ایک ایسے سانحے کا گواہ ہے جہاں لہروں کی گڑگڑاہٹ اور قابض اسرائیلی طیاروں کی گھن گرج ایک ساتھ سنائی دیتی ہے۔ نصف کلو میٹر سے بھی کم رقبے پر پھیلا یہ تنگ و تاریک علاقہ گذشتہ دنوں سے دسیوں ہزار مظلوم فلسطینیوں کی جبری پناہ گاہ بن گیا ہے جو شمالی غزہ اور شہر کے مضافات سے بمباری کے خوف سے یہاں آ پہنچے۔

مگر یہ تنگ جگہ مزید پناہ گزینوں کو سہارا دینے کے قابل نہیں رہی۔ بوسیدہ مکان لبالب بھر گئے ہیں، چھوٹے صحنوں میں خیمے تلے خیمے لگ گئے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ قابض اسرائیل کے طیارے مسلسل بمباری کر کے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ یہاں کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں۔

تنگ گلیوں میں ہر چہرہ ایک داستان سناتا ہے۔ مائیں بچوں کو بانہوں میں تھامے پانی کی ایک بوند کو ترس رہی ہیں، مرد طویل قطاروں میں کھڑے ہیں کہ شاید انہیں ایک روٹی یا آٹے کا کوئی تھیلا مل جائے اور معصوم بچے ملبے کے ڈھیروں میں کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ دھماکوں کی گونج سے کچھ لمحوں کے لیے بھاگ سکیں۔

ابو محمد نامی ایک ساٹھ سالہ بزرگ جو بیت لاہیا سے نقل مکانی کر کے یہاں پہنچے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار کو بتاتے ہیں کہ “ہم سمجھے تھے کہ سمندر ہمارے لیے آخری پناہ گاہ ہوگا مگر یہ بھی جنگ کا میدان بن گیا۔ اب کہاں جائیں؟ سمندر ہمارے سامنے ہے اور قابض اسرائیل ہمارے پیچھے”۔

جمعرات 11 ستمبر کو قابض اسرائیلی طیاروں نے کیمپ پر وحشیانہ بمباری کر کے کم از کم 15 گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ متعدد اداروں کو خالی کرنے کے احکامات دیے گئے مگر اس سب کے باوجود کیمپ کے مکین نعرہ زن نکلے “ہم یہیں رہیں گے، کبھی ہجرت نہیں کریں گے”۔

نکبہ کی یاد تازہ

یہ کیمپ دکھ فلسطینیوں کا نیا سہارا نہیں۔ سنہ1949ء میں جب پہلی بار یہاں خیمے لگائے گئے تو یہ 23 ہزار فلسطینی مہاجرین کی جبری پناہ گاہ تھا جو یافا، مجدل، لد اور رملہ جیسے شہروں اور دیہات سے نکالے گئے تھے۔ برسوں میں خیمے ٹین کی جھونپڑیوں اور پھر پتھروں کے مکانات میں بدل گئے مگر یہ بستی آج بھی مسلسل جلاوطنی اور زبردستی ھجرت کی گواہی دے رہی ہے۔

سب سے زیادہ گنجان کیمپ

سنہ2023ء کی شماریات کے مطابق یہاں 47 ہزار سے زائد فلسطینی مقیم ہیں جب کہ انروا کے پاس رجسٹرڈ افراد کی تعداد 91 ہزار سے بھی زیادہ ہے جس کے باعث یہ غزہ کا سب سے زیادہ گنجان آباد کیمپ ہے۔ انروا کے 25 سکول ہنگامی پناہ گاہوں میں بدل چکے ہیں اور واحد ہسپتال اور طبی مراکز روزانہ ہزاروں مریضوں کے دباؤ میں کراہ رہے ہیں، جب کہ بجلی مکمل طور پر منقطع اور ادویات کی شدید قلت ہے۔

قائدین اور مزاحمت کی جنم بھومی

مگر الشاطی کیمپ صرف تنگ گلیاں اور چھوٹے مکانات نہیں، بلکہ یہ فلسطینی قیادت اور مزاحمت کی عظیم تاریخ کا بھی گہوارہ ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں حماس کے بانی الشیخ احمد یاسین شہید، اسماعیل ہنیہ شہید ، القسام کے کمانڈر عدنان الغول شہید اور اور صلاح شحادہ نکلے جنہیں قابض اسرائیل نے ایک ہی بم سے درجنوں شہریوں کے ساتھ شہید کیا۔

یہاں سے سرايا القدس کے پہلے کمانڈر محمد الخواجہ اور ابو یوسف القوقا بھی ابھرے جو “ألويہ الناصر صلاح الدین” کے بانی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کیمپ ہمیشہ قابض اسرائیل کے نشانے پر رہا۔ چاہے سنہ2008ء اور 2014ء کی جنگیں ہوں یا پھر “طوفان الاقصیٰ” کے بعد سنہ2023ء کا حالیہ قتل عام، ہر بار یہاں کی گلیاں خون اور آنسوؤں سے سرخ ہوئیں۔ سیکڑوں شہید اور زخمی ہوئے اور اہل خانہ نے اپنے پیاروں کو اجتماعی قبروں یا ملبے کے درمیان جلدی جلدی دفنایا۔

محاصرہ اور غربت

انروا کے زیرانتظام اس کیمپ میں سکول، صحت اور دیگر سہولیات ہیں مگر بڑھتی ہوئی آبادی کے آگے یہ سب بے بس ہیں۔ قابض اسرائیل کے ظالمانہ محاصرے نے شدید غربت، بے روزگاری، تعمیراتی سامان کی قلت، آلودہ پانی اور ماہی گیری پر پابندیاں مسلط کر رکھی ہیں حالانکہ کیمپ سمندر کے کنارے ہی واقع ہے۔ حالیہ جارحیت نے ان مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے اور اب دسیوں ہزار بے گھر افراد یہاں دبک کر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔

ملبے میں مسکراہٹیں

اس سب ظلم اور تباہی کے باوجود یہ گلیاں اپنی روح نہیں کھوتیں۔ شام کو جب بمباری کچھ تھمتی ہے تو بچے بڑوں کی جلائی آگ کے گرد جمع ہو جاتے ہیں تاکہ تھوڑا بہت کھانا پکایا جا سکے۔ وہ بھوک اور خوف کے باوجود مسکرا دیتے ہیں، گویا اعلان کرتے ہوں کہ یہ کیمپ جو ستر برسوں سے قابض اسرائیل کے محاصرے، قبضے اور ظلم تلے جی رہا ہے آج بھی زندگی سے لبریز ہے۔

ستر برس کی جلاوطنی اور استقامت کی علامت

الشاطی کیمپ آج محض غزہ کے نقشے پر ایک مقام نہیں بلکہ فلسطینی قوم کی پوری کہانی ہے۔ یہ نکبہ سے لے کر نئے جبری نقل مکانی تک کا سفر ہے۔ خیموں سے ملبے تک اور وطن سے محرومی سے ہمیشہ نئی پناہ کی تلاش تک کی داستان ہے۔

قابض اسرائیل لاکھ کوشش کرے کہ اہل غزہ کو زمین سے اکھاڑ دے مگر یہ کیمپ آج بھی اپنی صدیوں پرانی صدا دہرا رہا ہے: “ہم یہیں رہیں گے، چاہے سمندر تنگ ہو یا زمین۔”

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan