مقبوضہ بیت المقدس (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو نے جمعرات کے روز مغربی کنارے میں مقبوضہ بیت المقدس کے قریب بستیاں پھیلانے کے منصوبے “E1” پر باضابطہ دستخط کر دیے۔ اس موقع پر اس نے واضح اعلان کیا کہ اس کی حکومت کسی بھی صورت فلسطینی ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دے گی اور غزہ میں جو کچھ شروع ہوا ہے وہ صرف وہیں محدود رہے گا۔
نیتن یاھو نے کہاکہ “ہم پہلے ہی عہد کر چکے ہیں کہ کوئی فلسطینی ریاست وجود میں نہیں آئے گی اور یہ وعدہ ہمیشہ قائم رہے گا”۔
اس نے مزید بڑھ چڑھ کر دعویٰ کیا کہ “ہماری سرزمین پر کئی نئی آبادیاں ہوں گی جو معالیہ ادومیم جیسی ہوں گی”۔
نیتن یاھو کے بقول قابض اسرائیل کی مشرقی سرحد معالیہ ادومیم نہیں بلکہ وادی اردن ہے اور اس کی حکومت ہر محاذ پر نام نہاد “ابدی اسرائیل” کے حصول کے لیے کام کر رہی ہے۔
“E1” منصوبے کے تحت ہزاروں نئی صیہونی بستیوں کی تعمیر فلسطینی زمین پر کی جائے گی جو مشرقی بیت المقدس اور معالیہ ادومیم کے درمیان واقع ہے۔
یہ منصوبہ عالمی سطح پر شدید تنقید اور غم و غصے کا باعث بنا ہے۔ کئی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے کھلے عام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے جبکہ قابض اسرائیل اس منصوبے کو آبادی کی ضروریات اور انفراسٹرکچر کے پھیلاؤ کے بہانے سے جائز ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ “ای 1” منصوبہ جو پہلی بار سنہ1997ء میں سامنے آیا تھا مغربی کنارے کے سب سے خطرناک استعماری منصوبوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کا مقصد مشرقی بیت المقدس کے اطراف کی فلسطینی بلدات جیسے عناتا، الطور اور حزما کو گھیر کر ان کی مشرق کی طرف قدرتی توسیع روکنا اور اس طرح مستقبل میں بیت المقدس کو کسی آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بننے سے روک دینا ہے۔ یہ استعماری پٹی مغربی کنارے کو جغرافیائی طور پر تقسیم کر کے اس کی وحدت ختم کر دے گی۔
یاد رہے کہ نیتن یاھو جسے عالمی فوجداری عدالت میں جنگی مجرم کے طور پر طلب کیا گیا ہے گذشتہ ماہ کھلے عام نام نہاد “گریٹر اسرائیل” کے تصور کی حمایت کر چکا ہے۔ اس اعلان پر عرب دنیا میں شدید غم و غصہ بھڑک اٹھا اور متعدد ممالک نے باضابطہ سخت مذمت کی۔
نیتن یاھو نے اپنی توسیع پسندانہ سوچ کو “تاریخی اور روحانی پیغام” قرار دیا جو نسل در نسل منتقل ہوگا۔ یہ بیانات اسی وقت سامنے آئے جب قابض اسرائیل کی کنیست نے مغربی کنارے کو باضابطہ اپنے اندر ضم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
عرب ممالک نے نیتن یاھو کے ان جارحانہ بیانات پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔ اردن نے اسے اشتعال انگیزی، علاقائی خودمختاری کے لیے کھلا خطرہ اور اقوام متحدہ کے چارٹر و عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ عمان نے خبردار کیا کہ یہ خطرناک موقف پورے خطے کو بدامنی، خونریزی اور مستقل کشمکش میں دھکیل دے گا۔
سعودیہ اور قطر نے بھی نیتن یاھو کے بیانات اور استعماری منصوبوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ قابض اسرائیل کے تمام توسیع پسند عزائم کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فلسطینی عوام کو اپنی آزاد اور مکمل خودمختار ریاست قائم کرنے کا تاریخی و قانونی حق حاصل ہے۔