صہیونی فوجیوں نے مقبوضہ بیت المقدس کے رکن پارلیمان محمد ابوطیر کو اغوا کر کے’’مسکوبیہ‘‘ جیل منتقل کر دیا ہے۔ اسرائیل نے ابوطیر سمیت چار اراکین پارلیمان کی القدس سے بے دخلی کا فیصلہ کر رکھا ہے جس پر عملدرآمد کا آغاز کرتے ہوئے ابوطیر کو حراست میں لیا گیا۔ اس سے قبل اسرائیلی فوج کی بڑی تعداد ان کے گاؤں میں ان کے گھر کے قریب گھات لگا کر بیٹھی رہی۔ اسرائیلی فوج نے رکن پارلیمان احمد عطون کی کار کو روکا جس میں ابوطیر بھی سوار تھے جن کو گرفتار کر لیا گیا۔ فوج کی جانب سے گرفتاری کا جواز یہ دیا گیا کہ ان کی بیت المقدس میں رہنے کی مدت ختم ہو چکی ہے جس کے بعد انہیں یہاں رہنے کی مزید اجازت نہیں ہے۔ القدس کے سابقہ وزیر انجینئر خالد ابوعرفہ نے ابو طیر کی گرفتاری کی خبر سن کر کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ قابض اسرائیل نے ابوطیر اور دیگر تین اراکین پارلیمان کی القدس سے بے دخلی کے فیصلے پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔ ابوعرفہ نے کہا کہ حالیہ صہیونی جارحیت ’’ ریڈ کراس ‘‘ کے ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان کہ بہ قول اس واقعے سے ثابت ہو گیا ہے کہ اسرائیل ان اراکین کے خلاف کیے گئے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے سنجیدہ ہے اور فتح حکام اور قابض اسرائیل کے مابین مذاکرات کی بات چیت بھی درست نہیں۔ دوسری جانب اسرائیلی پولیس ذرائع نے کہا ہے کہ اراکین پارلیمان کی القدس سے بے دخلی کے موضوع پر ہونے والے مذاکرات کا تعلق ابوطیر سے نہیں ہے۔ ان کی گرفتاری اس لیے کی گئی ہے کیونکہ اسرائیلی قانون کی رو سے ان کی القدس میں موجودگی درست نہیں۔ ابوطیر کی ناجائز گرفتاری پر مسلمان اراکین پارلیمان نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے منظم انداز میں ہجرت کی پالیسی کا حصہ اور ظالمانہ اقدامات کا تسلسل قرار دیا۔ پارلیمنٹیرینز نے کہا کہ اسرائیلی کی موجودہ پالیسی جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ آج ثابت ہو گیا کہ اسرائیل اپنے وعدوں اور معاہدوں کی پاسداری کرنے کے بجائے بیت المقدس سے یہاں کے باشندوں کو زبردستی ہجرت کروانے کی اپنی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اپنے ہدف کے حصول کے لیے اسرائیل کھل کر اقدامات کرنے اور رائے عامہ کو تبدیل کرنے میں ناکام ہو گیا ہے جس کے بعد اس نے یہ طریقہ اختیار کر لیا ہے۔اراکین پارلیمان کا کہنا تھا کہ بے دخلی کی حالیہ پالیسی کی ناکامی سے اسرائیل کو شدید دھچکا لگے گا۔