غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اقوام متحدہ کے نمائندہ برائے حقِ مناسب رہائش بالا کریشنن راج گوپال نے مطالبہ کیا ہے کہ قابض اسرائیل کو اسلحہ کی برآمدات فوری طور پر بند کی جائیں کیونکہ یہ ہتھیار غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کے ہولناک منصوبے میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔
راج گوپال نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان ممالک کو تنقید کا نشانہ بنایا جو غزہ میں جاری قتل عام کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے میں ناکام رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا نے فلسطینی عوام کو تنہا چھوڑ دیا ہے اور بین الاقوامی نظام بری طرح ناکام ہوا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ دونوں ہی غزہ میں نسل کشی روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے بہ قول اب یہ ذمہ داری عالمی رہنماؤں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ محصور فلسطینی علاقے میں مزید اجتماعی قتل عام اور بربادی کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔
راج گوپال نے قابض اسرائیل کے مظالم کی ایک بھیانک جھلک پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج خیموں میں مقیم بے گھر فلسطینیوں کو بھی وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنا رہی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ غزہ کے عوام کو جبری طور پر بے دخل کرنے کی سازش سنگین نتائج مرتب کرے گی، جس میں خوراک تک ان کی رسائی روک دینا بھی شامل ہے۔
ادھر قابض اسرائیلی حکومت نے شہر غزہ پر قبضے کی دھمکی دی ہے۔ اسرائیلی چینل 13 کے مطابق فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر پر قبضہ کرنے میں ایک سال لگ سکتا ہے اور اس کارروائی کے دوران کم از کم 100 فوجی ہلاک ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ کی پشت پناہی سے قابض اسرائیل 7 اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے جس میں قتل عام، بھوک مسلط کرنا، تباہی پھیلانا اور جبری بے دخلی جیسے جنگی جرائم شامل ہیں۔ اسرائیل نے نہ صرف عالمی برادری کی اپیلوں کو نظر انداز کیا بلکہ عالمی عدالتِ انصاف کے حکم کو بھی پاؤں تلے روند ڈالا۔
اس ہولناک نسل کشی کے نتیجے میں اب تک کم از کم 63 ہزار 633 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ مزید 1 لاکھ 60 ہزار 914 افراد زخمی ہیں، 9 ہزار سے زائد لاپتہ ہیں اور لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے بے دخل ہو کر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ قحط کی وجہ سے 361 فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں جن میں 130 معصوم بچے شامل ہیں۔