غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )قابض اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں قتل و تباہی کا کوئی ایسا ہتھیار نہیں چھوڑا جو آزمایا نہ ہو۔ اس محصور خطے کو اس نے اپنی خون آشام جنگی مشینری کے تجرباتی میدان میں بدل دیا ہے۔ اب تقریباً 23 ماہ کی لگاتار نسل کشی کے بعد “بارودی روبوٹ” قابض اسرائیل کے ان درندہ صفت ہتھیاروں میں شامل ہو چکے ہیں، جو گھروں اور رہائشی محلوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
یہ بارودی روبوٹ دراصل امریکہ ساختہ M113 بکتر بند گاڑیاں ہیں، جو کئی سال قبل سروس سے نکال دی گئی تھیں۔ انہیں دوبارہ ڈیزائن کرکے پانچ ٹن تک بارود سے بھرا جاتا ہے اور بغیر کسی انسانی عملے کے تباہ کن ہتھیار کے طور پر ریمورٹ کنٹرول سے بھیجا جاتا ہے۔
یہ روبوٹ رہائشی علاقوں کے بیچوں بیچ لے جائے جاتے ہیں اور یا تو خودکار نظام سے یا ڈرون کے ذریعے دھماکے سے اڑا دیے جاتے ہیں۔ ان کا ایک دھماکہ تین سو مربع میٹر تک کے علاقے کو کھنڈر میں بدل دیتا ہے، عمارتوں میں زنجیروں کی مانند گرنے والی تباہی برپا ہوتی ہے اور گلیاں ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق ان دھماکوں کی شدت انسانی جسموں کے پرخچے اڑا دیتی ہے، رگیں پھٹ جاتی ہیں اور مناظر یوں ہوتے ہیں گویا قابض فوج نے منظم اجتماعی قتل عام کی مشق کی ہو۔
قتل و تباہی کے ہتھیاروں میں تنوع
جنگ کے ابتدائی مہینوں میں قابض اسرائیل نے F-16 طیاروں سے فضائی حملے کیے، رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانے کے لیے گائیڈڈ بم برسائے۔ مگر امریکی امداد کے باوجود “سمارٹ بم” کی کمی کے بعد اسرائیلی فوج نے روبوٹ بموں پر زیادہ انحصار شروع کیا، جو ان کے نزدیک “سستا اور زیادہ تباہ کن” آپشن ہے۔
ارض محروقہ کی پالیسی اور جبری ہجرت
عسکری امور کے ماہر واصف عریقات نے بتایا کہ ایک بارودی روبوٹ سے پانچ فضائی بموں کا کام لیا جاتا ہے۔ یہ قابض فوج کی ” ارض محروقہ ” کی پالیسی کا حصہ ہے، جہاں یہ بکتر بند گاڑیاں محلوں کے بیچ دھماکے سے اڑائی جاتی ہیں تاکہ خوف پھیلایا جائے اور لوگ اجتماعی طور پر نقل مکانی پر مجبور ہوں، جس کے بعد قابض فوج زمینی یلغار کرتی ہے۔
ان روبوٹوں کی دو اقسام ہیں: بڑی چین والی بکتر بند گاڑیاں جو متحرک بم کے طور پر استعمال ہوتی ہیں اور چھوٹے روبوٹ جو گلیوں یا سرنگوں کے دہانے پر بھیجے جاتے ہیں تاکہ انہیں بارودی مواد سے اڑایا جا سکے۔
صرف غزہ شہر کے جنوبی علاقے الزيتون میں اگست سنہ2025ء کے آغاز سے اب تک 1500 سے زائد گھر انہی بارودی روبوٹوں اور دیگر فضائی و زمینی بمباری سے ملیا میٹ کیے جا چکے ہیں۔
عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی
قانونی ماہرین کے نزدیک ان روبوٹوں کا استعمال بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے کیونکہ یہ اندھا دھند تباہی پھیلاتے ہیں اور عام شہری و جنگجو میں فرق نہیں کر پاتے۔ یہ مہلک ہتھیار عالمی سطح پر ممنوعہ قرار دیے جا چکے ہیں کیونکہ یہ نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی طور پر بھی عام شہریوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔
یہ قابض اسرائیل کی ایک اور پالیسی ہے جس کے ذریعے فلسطینی عوام کو جبراً گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے، تاکہ لوگ خوف اور موت کے سائے میں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔
ایک سیاہ ریکارڈ
یہ بارودی روبوٹ قابض اسرائیل کے ان گنت ممنوعہ ہتھیاروں میں سے ایک ہیں جنہیں غزہ پر آزمایا گیا ہے۔ ان میں شامل ہیں:
سفید فاسفورس کے بم (2008 اور 2014)
ڈائم بم اور کیل بم
JDAM اور GBU جیسے انتہائی تباہ کن بم
ٹنگسٹن اور کوبالٹ جیسے بھاری دھاتوں پر مشتمل دھماکہ خیز مواد
ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی بین الاقوامی اداروں نے ان کے استعمال کو مکمل جنگی جرائم قرار دیا ہے۔
قابض اسرائیل کے مقاصد
فوجی تجزیہ کار رامی ابو زبیدہ کے مطابق ان روبوٹوں کے ذریعے قابض اسرائیل تین بڑے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے:
اپنے فوجیوں کے جانی نقصان کو کم کرنا
سرنگوں اور دفاعی تنصیبات کو تباہ کرنا تاکہ ٹینکوں کے لیے راستہ ہموار ہو
فلسطینی عوام پر اجتماعی صدمہ مسلط کرنا تاکہ خوف و ہراس کے ذریعے ان کا حوصلہ توڑا جا سکے
انہوں نے بتایا کہ ان روبوٹوں کا پہلا استعمال مئی سنہ2024ء میں شمالی غزہ کے جبالیا میں ہوا تھا، بعدازاں انہیں شمالی و جنوبی علاقوں میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا، حتیٰ کہ ہسپتالوں کے قریب بھی، جہاں طبی عملے اور بنیادی ڈھانچے کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
شہری خالد ابو العراج نے بتایا کہ ان روبوٹوں کے دھماکے انتہائی دہشتناک آواز پیدا کرتے ہیں اور زیادہ تر دھماکے رات کے وقت کیے جاتے ہیں تاکہ شہری زیادہ وحشت کا شکار ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ “ان دھماکوں سے دل دہل جاتے ہیں اور زمین لرزنے لگتی ہے، ہم نے ایسا کیا جرم کیا کہ یہ عذاب ہمارے اوپر ٹوٹ رہا ہے؟ ہمارے بچوں اور عورتوں نے کیا قصور کیا کہ وہ دن رات خوف میں جئیں؟”
نیا طریقہ کار: ڈرون کے ذریعے گھروں کا دھماکہ
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار نے رپورٹ کیا کہ قابض فوج نے حالیہ دنوں میں “کواڈ کاپٹر” کے ذریعے گھروں کو بارودی مواد سے اڑانا شروع کر دیا ہے۔ یہ ڈرون بارود سے لدی سیڑھیاں اٹھا کر گھروں پر گراتے ہیں اور پھر انہیں دھماکے سے اڑا دیتے ہیں۔
شہری وسام ابو شعیرہ نے کہاکہ “اب تو قابض فوج نے کوئی بھی طریقہ نہیں چھوڑا، گھروں کو تباہ کرنے کے لیے کبھی فضائی بمباری کرتا ہے، کبھی روبوٹ بھیجتا ہے اور کبھی ڈرون کے ذریعے دھماکے کرواتا ہے۔ غزہ شہر کو آگ میں جھونک دیا گیا ہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے”۔
قابض اسرائیل اپنی قتل و تباہی کی مشینری میں نت نئے طریقے ایجاد کر رہا ہے تاکہ فلسطینیوں کی سب سے بڑی اجتماعی نسل کشی کی جا سکے، ان کی تہذیب و ثقافت کو مٹایا جا سکے اور بین الاقوامی انسانی قوانین کو پامال کیا جا سکے۔ فلسطینی عوام پکار اٹھتے ہیں: کب تک دنیا خاموش رہے گی؟ اور کب اس مجرم ریاست کو اس کے قتل عام، تباہی اور بھوک مسلط کرنے پر جواب دہ بنایا جائے گا؟ لیکن یہ طے ہے کہ ہم نہ بھولیں گے اور نہ معاف کریں گے۔