بیروت ۔(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نعیم قاسم نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ مزاحمت اپنے ہتھیار کسی صورت ترک نہیں کرے گی۔ انہوں نے لبنانی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے امریکہ اور قابض اسرائیل کے دباؤ پر ایک سنگین اور شرمناک فیصلہ کیا ہے جس کے تحت مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جنوبی بیروت کی ضاحیہ میں عالم دین علی موسوی کے ایصالِ ثواب کی تقریب سے وڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے نعیم قاسم نے کہا کہ لبنانی حکومت نے جنگ کے وقت میں مزاحمت کو اسلحے سے محروم کرنے کا “خبط انگیز” فیصلہ کیا ہے جو لبنان کے آئین اور قومی میثاق کے سراسر منافی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ “جو لوگ ہم سے ہتھیار چھیننا چاہتے ہیں وہ دراصل ہماری روح چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو دنیا ہماری قوت اور صبر آزما مزاحمت کو اپنی آنکھوں سے دیکھے گی”۔
نعیم قاسم نے کہا کہ “ہم نے پانچ ہزار مجاہدین اور بڑے بڑے قائدین کی قربانیاں پیش کی ہیں، اب ہم سے کہا جا رہا ہے کہ ہتھیار رکھ دو؟ ہرگز نہیں۔ حزب اللہ کبھی اپنے اسلحے سے دستبردار نہیں ہوگی اور قابض اسرائیل کو کھلی چھوٹ نہیں دے گی کہ وہ قتل و غارت گری کرے اور ارضِ لبنان میں دندناتا پھرے”۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر حکومت نے اس فیصلے سے پسپائی اختیار نہ کی تو وہ لبنانی خودمختاری کی امانت دار نہیں سمجھی جا سکتی۔
حزب اللہ کے سربراہ نے لبنانی حکومت کو دعوت دی کہ وہ قومی دفاعی حکمتِ عملی پر بات کرے، فوج کو مضبوط بنائے اور قومی خودمختاری کی بحالی کے لیے عملی منصوبہ مرتب کرے۔ انہوں نے کہا کہ فوج کا مسلح ہونا ناگزیر ہے کیونکہ وہ لبنان کی حفاظت کی پہلی ذمہ دار ہے جبکہ مزاحمت اس کی معاون ہے۔ “فوج اصل محافظ ہے اور مزاحمت نے اپنی ذمہ داری کھوئی نہیں بلکہ مکمل کر رہی ہے”۔
انہوں نے کہا کہ مزاحمت کا کوئی متبادل نہیں، اس کے بغیر صرف اور صرف ” جھکنے” یعنی ہتھیار ڈالنے کی راہ بچتی ہے۔ “مزاحمت ہی قابض اسرائیل کے خلاف مضبوط دیوار ہے جو اسے اپنے اہداف حاصل کرنے سے روکتی ہے”۔
نعیم قاسم نے کہا کہ لبنان نے فوج، عوام اور مزاحمت کی مثلث کے ذریعے گذشتہ 17 برسوں تک قابض اسرائیل کو روک کر رکھا۔ “اگر مزاحمت نہ ہوتی تو قابض اسرائیل بیروت تک پہنچ چکا ہوتا جیسے وہ دمشق تک پہنچ گیا تھا۔” انہوں نے بتایا کہ حالیہ جنگ میں قابض اسرائیل جنوبی لبنان کی پانچ پہاڑیوں سے آگے نہیں بڑھ سکا اور یہ مزاحمت کی موجودگی کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ “قابض اسرائیل چاہے زمین پر قبضہ کرے اور تباہی مچائے، ہم اس کے سامنے ڈٹیں گے تاکہ وہ اپنے خوابیدہ منصوبے پورے نہ کر سکے، اور ہم اس کے مقابلے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔”
یاد رہے کہ 5 اگست کو لبنانی کابینہ نے ایک فیصلہ منظور کیا تھا جس کے مطابق ملک میں اسلحہ صرف ریاست کے ہاتھ میں ہوگا اور فوج کو منصوبہ بنا کر سال 2025ء کے اختتام تک حزب اللہ سمیت دیگر گروہوں کو غیر مسلح کرنے کا اختیار دیا گیا۔ حزب اللہ نے اس فیصلے کو سختی سے مسترد کر دیا اور متنبہ کیا کہ اس طرح کی حرکت ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
دو روز بعد لبنانی حکومت نے امریکہ کی اس تجویز پر بھی آمادگی ظاہر کی جس میں قابض اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے لیے ایک روڈ میپ دیا گیا ہے جس کے تحت حزب اللہ کا ہتھیار چھینا جائے گا اور فوج کو جنوبی لبنان میں تعینات کیا جائے گا۔