Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

ہارورڈ یونیورسٹی کے سینکڑوں اسکالرز کی غزہ میں نسل کشی پر بحث دبانے کی مذمت

نیویارک ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) سینکڑوں ماہرین تعلیم، اساتذہ اور تعلیمی ماہرین نے ہارورڈ ایجوکیشنل پبلشنگ گروپ کی جانب سے فلسطین سے متعلق ایک خصوصی شمارہ منسوخ کرنے کے اقدام کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ دراصل فلسطینی عوام پر جاری نسل کشی، ان کی بھوک اور ان کی انسانیت کی تذلیل پر علمی بحث کو دبانے کی دانستہ کوشش ہے۔

امریکی ویب سائٹ مونڈو ویس کے مطابق 30 سے زائد ممالک اور 160 جامعات کے 700 سے زیادہ محققین و اساتذہ نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے ہیں جس میں انہوں نے ہارورڈ ایجوکیشنل پبلشنگ گروپ کی اس پابندی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ شمارہ فلسطین اور تعلیم کے موضوع پر تھا جسے اچانک روک دیا گیا۔

مکتوب کے اہم دستخط کنندگان میں امریکہ اور دنیا بھر کے نامور محققین اور ممتاز اسکالرز شامل ہیں جن میں ہنری جیرُو، ایو ٹاک، مائیکل ڈبلیو ایپل، زئیس لیونارڈو، نینسی سٹرن، سارہ احمد اور کارما نابلسی جیسے معتبر نام شامل ہیں۔

کھلے خط میں کہا گیا کہ “ہم، بطور محققین اور اساتذہ، اس فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ یہ پابندی دراصل قابض اسرائیل اور اس کے حامیوں کی طرف سے فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی، بھوک اور انسانیت سے محرومی پر جاری تحقیقی بحث کو دبانے کی ایک کھلی کوشش ہے۔”

گارجین کے مطابق، شمارے میں شامل مصنفین کو آخری مرحلے پر بتایا گیا کہ ہارورڈ یونیورسٹی کا جنرل کونسل آفس تمام مضامین کی قانونی جانچ کرے گا۔ اس غیر معمولی اقدام کے جواب میں 21 شریک مصنفین نے ہارورڈ ایجوکیشنل پبلشنگ گروپ اور ہارورڈ ایجوکیشنل ریویو کو مشترکہ خط بھیجا اور اس عمل کو ان کی علمی آزادی اور معاہدوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔

لیکن اس احتجاج کے باوجود ادارے نے یک طرفہ طور پر پورے شمارے کو منسوخ کر دیا اور مصنفین کے معاہدے بھی ختم کر دیے۔ گارجین نے اسے “فلسطینی کاز کے حق میں آوازوں کو دبانے کی بڑھتی ہوئی مہم” کا حصہ قرار دیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام “فلسطین کو آزادی اظہار اور علمی آزادی سے خارج کرنے” کے مترادف ہے جس سے فلسطینیوں کے خلاف امتیازی سلوک مزید گہرا ہوتا ہے۔ یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب غزہ میں تعلیمی ادارے تقریباً مکمل طور پر تباہ کیے جا چکے ہیں اور فلسطینی طلبہ و اساتذہ تاریخ کی بدترین “تعلیمی نسل کشی” کا شکار ہیں۔

ماہرین نے کہا کہ “تعلیمی نسل کشی” کا مفہوم فلسطینی محققین نے متعارف کرایا تھا جو قابض اسرائیل کے اس منظم اور دانستہ حملے کو بیان کرتا ہے جس کا ہدف فلسطینی تعلیمی نظام، علمی ڈھانچے اور ثقافتی بنیادوں کو مٹانا ہے۔ سنہ2023ء کے اکتوبر سے یہ سلسلہ بڑھ کر غزہ میں تعلیم کی تقریباً مکمل تباہی تک پہنچ چکا ہے۔

منسوخ کردہ شمارے میں محققین نے کئی اہم موضوعات کا احاطہ کیا تھا جن میں اسرائیلی نصاب میں فلسطین کو مٹانے کی سازش، مقبوضہ مغربی کنارے میں انگریزی زبان کے اساتذہ کی اخلاقی و تعلیمی ذمہ داریاں، لبنان میں فلسطینی اساتذہ کی جدوجہد اور امریکہ کی جامعات میں فلسطین کے موضوع پر عائد رکاوٹوں کے اثرات شامل تھے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ ہارورڈ کے اس فیصلے نے ایک ممتاز فلسطینی محقق، غزہ کی ایک معروف یونیورسٹی کے ڈین اور “تعلیم کے حق” کی مہم کے مرکزی منتظم سمیت کئی اہم فلسطینی علمی آوازوں کو خاموش کرنے کی کوشش کی ہے۔

محققین نے مطالبہ کیا کہ:
1۔ ہارورڈ اپنے اقدام کو فلسطینیوں کے خلاف علمی امتیاز اور آزادی اظہار کی پامالی کے طور پر تسلیم کرے۔
2۔ مستقبل میں ایڈیٹوریل آزادی کے تحفظ کی ضمانت دے تاکہ تعلیمی مضامین کو کسی سیاسی یا قانونی دباؤ کے تحت نہ دبایا جا سکے۔
3۔ فلسطین اور تعلیمی نسل کشی پر ایک نیا خصوصی شمارہ شائع کرے۔
4۔ متأثرہ مصنفین کو انصاف فراہم کرے اور ان سے باضابطہ معذرت کرے۔

خط میں عالمی ماہرین تعلیم سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ہارورڈ ایجوکیشنل پبلشنگ گروپ کے ساتھ ہر قسم کے تعاون سے دستبردار ہوں جب تک کہ یہ ادارہ اپنی اس سنگین غلطی کا ازالہ نہ کرے۔

ماہرین نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ خط محض احتجاج نہ رہے بلکہ عالمی تعلیمی برادری کو متوجہ کرے کہ غزہ کے اساتذہ اور طلبہ شدید ترین حالات میں بھی تدریس اور سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور تعلیم کی بقا کے لیے اپنی جانوں تک کی قربانی دے رہے ہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan