غزہ ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) پیر کے روز درجنوں بچوں نے مغربی غزہ شہر میں ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کے معصوم بچوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے فوری مداخلت کریں۔ یہ احتجاجی مظاہرہ الضمیر فاؤنڈیشن برائے انسانی حقوق کے زیر اہتمام میڈیا سولیڈیریٹی سنٹر کے دفتر میں منعقد کیا گیا جہاں بچوں نے اپنی “فوری مدد کی پکار” عالمی اداروں کے حوالے کی۔
بچوں نے ہاتھوں میں بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا کہ “نسل کشی بند کرو، بچپن کو بچاؤ”، “غزہ کے بچوں کے خلاف جنگ بند کرو”، “غزہ کے بچے صرف اعداد نہیں”، “غزہ کے بچے بھوک سے مر رہے ہیں”۔ بچوں نے جنگ، قتل عام اور قحط کے خاتمے کے حق میں نعرے بلند کیے۔
مظاہرے میں تقریباً سو بچے شریک ہوئے جنہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ انہیں اجتماعی قتل عام، جبری ہجرت اور قحط کے شکنجے سے نجات دلائے اور فوری طور پر بین الاقوامی تحفظ فراہم کرے۔
زیتون محلے سے بے گھر ہو کر غزہ کے مغربی ساحلی پناہ گزین کیمپ میں رہنے والی 16 سالہ بچی ریماس الہندی نے کہا کہ وہ ایک خیمے میں رہنے پر مجبور ہے جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ اس نے بتایا کہ “ہم بمباری کے خوف اور قابض کی جانب سے دانستہ بھوک مسلط کرنے کی وجہ سے اذیت میں ہیں۔ میں نے اس احتجاج میں حصہ اس لیے لیا تاکہ دنیا ہماری چیخیں سن سکے اور ہمارے قتل، خوف اور جلاوطنی کو ختم کرنے کے لیے حرکت میں آئے۔” ریماس نے مزید کہا کہ “ہم شدید نفسیاتی دباؤ میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا ہماری بات سنے اور نسل کشی کو روکے۔”
13 سالہ بچی رہف الفیومی نے کہا کہ اس نے جنگ کے خاتمے کے نعرے لگائے اور مطالبہ کیا کہ “ہمیں بھی سکون اور تحفظ میں زندگی گزارنے کا حق ہے۔ ہم خوف، موت اور بھوک سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جنگ ختم ہو اور ہم باقی دنیا کے بچوں کی طرح تعلیم اور اپنی زندگی پر توجہ دے سکیں۔”
اسی طرح 15 سالہ راما خضر نے کہا کہ “یہ احتجاج دنیا کو متوجہ کرنے کی کوشش ہے تاکہ وہ غزہ کے بچوں کے حقیقی المیے کو دیکھ سکے اور جنگ کو روکے۔ ہم اپنے چھینے گئے حقوق کی بات کرنے آئے ہیں۔ ہمیں محفوظ زندگی کا حق ہے، صحت کا حق ہے، تعلیم کا حق ہے۔ یہ جنگ ہماری ہر چیز چھین چکی ہے، کوئی اپنا گھر کھو چکا ہے کوئی دوست اور کوئی اپنے پیارے”۔
اس موقع پر الضمیر برائے انسانی حقوق کے وکیل محمد البردویل نے بتایا کہ ان کی تنظیم نے بچوں کی جانب سے دیا گیا استغاثہ وصول کر لیا ہے اور اسے اقوام متحدہ کے نمائندوں اور سلامتی کونسل سمیت متعلقہ بین الاقوامی اداروں تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ “یہ احتجاج بچوں کی اپنی درخواست پر ہوا ہے جو نسل کشی، بمباری، جبری ہجرت اور بھوک کے باعث ناقابل برداشت حالات میں جی رہے ہیں۔”
البردویل نے انکشاف کیا کہ قابض اسرائیل کی ظالمانہ نسل کشی کی جنگ کے نتیجے میں سات اکتوبر سنہ2023ء سے اب تک 18 ہزار فلسطینی بچے شہید ہو چکے ہیں۔ “22 ماہ گزرنے کے باوجود نہ بچوں کو تحفظ ملا نہ شہریوں کو، حالانکہ یہ سب بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے سخت محاصرے اور خوراک و ادویہ کی مکمل بندش نے غزہ کے 70 سے 80 فیصد بچوں کو شدید غذائی قلت کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں میں صرف بھوک اور قحط کے باعث 122 بچے شہید ہو چکے ہیں۔ قابض اسرائیل دانستہ طور پر بھوک، محاصرہ اور قتل کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔