Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

’ غزہ میں بھوک کی زنجیریں… معصوم بچوں کے لبوں پر آہیں، ماؤں کی سسکیاں‘

غزہ ۔  (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ شہر کے مغربی کنارے پر ایک خیمہ جس کی تنگ و تاریک دیواریں گرمی اور کسمپرسی کی گواہ ہیں۔ اس خیمے میں 39 سالہ امینہ خلیل اپنے تین کم سن بچوں کو جھوٹی تسلی دیتی ہے کہ بھوک اب ختم ہونے والی ہے۔

مگر حقیقت کسی تیز خنجر کی طرح ہے جو ہر روز اس کے دل کو چیرتی ہے۔ گذشتہ برس صہیونی بمباری میں شوہر کی شہادت کے بعد اس کا ہر دن ایک نئے عذاب سے بھرا ہے۔ ماں کی آنکھوں کے سامنے جب بچے بھوک سے تڑپتے ہیں تو الفاظ بھی بوجھ لگتے ہیں۔

آنسو ضبط کرتے ہوئے امینہ کی لرزتی آواز دل کو ہلا دیتی ہے: “میرے بچے بھوکے سوتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ دنوں تک ہم کھانے کا ایک لقمہ تک نہیں دیکھتے۔ اب ہمارے پاس صرف پانی اور خشک روٹی بچی ہے۔ یہ بھی اب مشکل سے ملتی ہے”۔

وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں “کبھی کبھی خیراتی تنظیموں کے قافلے آتے تھے، جو معمولی کھانا بانٹ دیتے تھے، مگر وہ بھی کئی دنوں سے رکے ہوئے ہیں۔ آج ہمارے پاس بس انتظار ہےاور بھوک کبھی انتظار نہیں کرتی”۔

اس کے خیمے کے مناظر ہزاروں بیوہ فلسطینی عورتوں کے دکھ کا آئینہ ہیں۔ گیلی زمین پر بچھی بوسیدہ چٹائی ، پھٹے پرانے کپڑوں میں لپٹے بچے اور ایک خالی برتن جو کسی نامعلوم امدادی ٹرک کے آنے کی آس میں رکھا ہے۔

گفتگو کے اختتام پر امینہ کی ٹوٹی ہوئی صدا دل کو چیر دیتی ہے: “میں کوئی خواب نہیں مانگتی، بس اتنا چاہتی ہوں کہ ایک دن میرے بچے پیٹ بھر کر کھائیں اور مسکرا سکیں”۔

عورتوں اور بچوں کا خوں بہا

قابض اسرائیل کی درندگی کا سب سے زیادہ نشانہ خواتین اور معصوم بچے بنے ہیں۔ 24 اگست 2025ء تک شہداء کی تعداد 62 ہزار 300 سے بڑھ چکی ہے جن میں سات میں سے پانچ عورتیں اور بچے ہیں۔ صرف غزہ میں 7 اکتوبر سنہ2023ء سے اب تک پندرہ ہزار خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔

پناہ گزینوں کے کیمپ جو کبھی تحفظ کی علامت تھے، اب موت اور بھوک کے جنگل بن چکے ہیں۔ ایک دوسرے سے چپکے خیمے، سانس روک دینے والا دھواں، گندے نالوں سے اٹھتا تعفن اور بدبو ، زمین پر بھوکے سوتے بچے، یہ سب مل کر انسانیت کا جنازہ اٹھا رہے ہیں۔

ایک باپ کی فریاد

ایسے ہی ایک خیمے میں 44 سالہ ابراہیم زعانین بیٹھے ہیں جو شمالی غزہ کے علاقے بیت لاہیا میں اپنا تباہ شدہ گھر چھوڑ کر یہاں آئے۔ سورج کی تپش سے جھلستے خیمے میں ان کی حاملہ بیوی بغیر دوا اور علاج کے کرب سہ رہی ہے۔ بچے آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔

ابراہیم کا چہرہ تھکن اور غم سے اٹکھیلیاں کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے: “میری بیٹی رات بھر خارش سے رو تی اور چیختی ہے اور میرے پاس صرف گندا پانی ہے جس سے اس کا جسم دھوتا ہوں۔ ایک باپ اپنے بچوں کے درد کے آگے اتنا بے بس ہو جائے تو یہ موت سے بدتر عذاب ہے”۔

ابراہیم کا سترہ سالہ بیٹا سامی شرمندگی سے بتاتا ہے: “میں روز بازار میں بوجھ اٹھاتا ہوں اور پچیس شیکل کماتا ہوں۔ مگر یہ روٹی کے لیے بھی کافی نہیں۔ ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن دل کے اندر ٹوٹ پھوٹ مچ جاتی ہے”۔

انسانیت کی تذلیل

اقوام متحدہ نے گذشتہ جمعے غزہ میں قحط کا اعلان کیا، جو مشرق وسطیٰ میں اپنی نوعیت کا پہلا اعلان ہے۔ یہ کوئی قدرتی آفت نہیں بلکہ قابض اسرائیل کی دانستہ رکاوٹوں کا نتیجہ ہے جس نے امداد کو غزہ کے دروازوں پر روک دیا۔

“آئی پی سی” کی رپورٹ کہتی ہے کہ جولائی کے پہلے نصف میں غذائی قلت خطرناک حد کو چھو گئی۔ صرف اپریل سے جولائی کے وسط تک 20 ہزار بچے شدید غذائی قلت کے باعث ہسپتالوں میں پہنچائے گئے جن میں تین ہزار کی حالت نازک ہے۔

وزارت صحت نے انکشاف کیا کہ پانچ سال سے کم عمر کے بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔ 17 جولائی کے بعد سے کم از کم 16 بچوں نے دم توڑا ہے۔

عالمی ضمیر پر سوال

انروا کے ترجمان عدنان ابو حسنہ نے واضح کیا کہ “یہ کوئی اچانک بحران نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی صہیونی پالیسی ہے۔ امداد پر پابندیاں اور عالمی اداروں کی رکاوٹ نے بھوک کو روزمرہ کی حقیقت بنا دیا ہے۔”

وہ کہتے ہیں کہ “غزہ کے لوگ اب اپنی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ مایوسی انہیں اس حد تک لے گئی ہے کہ بعض اوقات امدادی ٹرک لوٹنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اگر بارڈر فوری طور پر نہ کھولا گیا اور خوراک، دوائیں اور ایندھن نہ پہنچا تو غزہ مکمل تباہی کی جانب بڑھ جائے گا”۔

ہر خیمے میں ایک کہانی

غزہ کے خیمے صرف کپڑے کی چادریں نہیں بلکہ انسانی دکھوں کی کتابیں ہیں۔ ہر خیمہ جدائی اور بھوک کی داستان سناتا ہے۔ ہر چہرے پر مایوسی کی لکیریں اور ہر آنکھ میں سوال ہے کہ دنیا کب جاگے گی؟

آج غزہ محض جنگ زدہ خطہ نہیں بلکہ انسانیت کی آزمائش ہے۔ لاکھوں شہری بھوک اور بیماری کے ساتھ تنہا چھوڑ دیے گئے ہیں، اور دنیا ان کے درد کو محض خبر کی سرخیوں میں قید کر کے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan