غزہ ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (انروا) کے کمشنر جنرل فلیپ لازارینی نے کہا ہے کہ شمالی غزہ میں اعلان کردہ قحط دراصل قابض اسرائیل کی ایک سوچی سمجھی اور منظم سازش ہے۔
لازارینی نے اپنے بیان میں کہا کہ غذائی سلامتی کے بین الاقوامی ادارے کے اعداد و شمار نے وسط اگست سے غزہ شہر میں قحط کی تصدیق کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہینوں سے جاری انتباہات کے باوجود دنیا نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا، اور اب یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ غزہ کو جان بوجھ کر قابض اسرائیلی حکومت نے قحط میں دھکیلا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سنگین صورتحال براہِ راست اُس پالیسی کا نتیجہ ہے جس کے تحت قابض اسرائیل نے کئی ماہ سے خوراک اور بنیادی اشیائے ضرورت غزہ میں داخل ہونے پر پابندی عائد کر رکھی ہے، حتیٰ کہ انروا جیسی انسانی ہمدردی کی تنظیموں کی امدادی سپلائیز کو بھی روکا گیا۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اب بھی وقت ہے کہ قحط کے مزید پھیلاؤ کو روکا جا سکے، بشرطیکہ فوری جنگ بندی کی جائے اور انسانی ہمدردی کے اداروں کو اپنا کام کرنے اور بھوک سے مرنے والے فلسطینیوں تک بروقت رسائی کی اجازت دی جائے۔ لازارینی نے اپنے بیان کے اختتام پر کہا کہ یہ لمحہ سیاسی عزم کا متقاضی ہے۔
انروا نے بھی ایک مختصر پیغام میں کہا کہ گزشتہ چھ ماہ سے قابض اسرائیلی حکام نے خوراک، پانی، دواؤں، ایندھن اور پناہ گاہ سمیت ہر بنیادی ضرورت پر سخت ترین پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
جمعہ کو جاری ہونے والی رپورٹ میں غذائی سلامتی کے مرحلہ وار انڈیکس نے متنبہ کیا کہ ستمبر میں قحط وسطی اور جنوبی غزہ، یعنی دیر البلح اور خان یونس تک پھیل سکتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پانچ لاکھ سے زائد فلسطینی براہِ راست قحط اور موت کے خطرے سے دوچار ہیں جبکہ دس لاکھ سے زیادہ افراد شدید غذائی عدم تحفظ میں مبتلا ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں ایک لاکھ بتیس ہزار سے زائد پانچ سال سے کم عمر کے بچے شدید غذائی قلت کے باعث موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
یہ اس وقت ہے جب غزہ کے داخلی راستوں پر انسانی ہمدردی کی ہزاروں ٹرکوں پر مشتمل امداد رکی ہوئی ہے، مگر قابض اسرائیل انہیں داخل ہونے سے روک رہا ہے یا محدود پیمانے پر محض اپنے کنٹرول میں تقسیم کر رہا ہے، جو اقوام متحدہ کے اداروں کے بقول سمندر میں ایک قطرے کے برابر ہے۔
قابض اسرائیل نے نہ صرف امداد کو روکا بلکہ جمعہ کو اس رپورٹ پر بھی حملہ کیا جس نے قحط کے حقائق کو آشکار کیا اور بے بنیاد دعویٰ کیا کہ رپورٹ محض “ٹیلی فون پر حاصل شدہ بیانات” پر مبنی ہے۔
قابض اسرائیل نے دو مارچ کو حماس کے ساتھ طے پانے والے جنگ بندی اور اسیران کے تبادلے کے معاہدے پر عمل درآمد سے پہلو تہی کی اور غزہ کے بارڈر پر کھڑی امدادی گاڑیوں کے داخلے پر پابندی برقرار رکھی۔
سات اکتوبر 2023ء سے قابض اسرائیل امریکہ کی کھلی سرپرستی میں غزہ میں قتلِ عام، بھوک، تباہی اور جبری ہجرت کے ذریعے کھلی نسل کشی کر رہا ہے۔ دنیا کے انتباہات اور عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلوں کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
اب تک قابض اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں باسٹھ ہزار ایک سو بانوے فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ ایک لاکھ ستاون ہزار ایک سو چودہ زخمی ہیں، نو ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں، لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں اور قحط کے باعث اب تک دو سو تہتر فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں ایک سو بارہ معصوم بچے شامل ہیں۔