غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ’انروا‘ کے میڈیا مشیر عدنان ابو حسنہ نے کہا ہے کہ غزہ جو کچھ دیکھ رہا ہے وہ ایک “بے مثال انسانی طوفان” ہے، جو قابض اسرائیل کی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔
ابو حسنہ نے نامہ نگاروں سے گفتگو میں واضح کیا کہ قابض اسرائیل غزہ کے تقریباً 86 فیصد علاقے پر براہِ راست قبضے، اخراج کے احکامات اور علاقوں کو خطرناک بنانے کے ذریعے عملی کنٹرول قائم کر چکا ہے، جس کی وجہ سے وہ دو لاکھ سے زائد فلسطینیوں کی زندگیوں کے بارے میں مکمل طور پر بین الاقوامی برادری کے سامنے جوابدہ ہے، جس میں صحت، تعلیم، پانی، بجلی، مواصلات اور حتیٰ کہ کچرا اٹھانے کی خدمات شامل ہیں۔
ابو حسنہ نے بتایا کہ غزہ میں جاری قحط “مصنوعی قحط” ہے، جس کا فیصلہ قابض اسرائیل نے 2 مارچ سنہ 2025ء کو لیا، جب اس نے خوراک، دوا اور ایندھن کی رسائی روک دی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ فلسطینیوں کو جنوب کی جانب جبری نقل مکانی پر مجبور کرنے کی کوئی بھی کوشش بین الاقوامی انسانی قانون، جنیوا کنونشن اور اقوام متحدہ کے منشور کی صریح خلاف ورزی ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ قابض اسرائیل انروا کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ فلسطینی پناہ گزینوں کے مسئلے کو کمزور کیا جا سکے اور دو ریاستی حل کی کسی بھی سیاسی راہ کو ناکام بنایا جا سکے، تاہم ایجنسی اپنا کام جاری رکھے گی۔
ابو حسنہ نے بتایا کہ ’انروا‘ نے مارچ تا جولائی کے دوران تقریباً ڈیڑھ لاکھ مریضوں کو صحت کی خدمات فراہم کیں، جن میں روزانہ اوسطاً 18 ہزار مریض شامل تھے، اور ہزاروں ملازمین نفسیاتی مدد، پناہ، پانی کی تقسیم اور کچرا اٹھانے کے شعبوں میں کام کرتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ ایجنسی کا کام اب “زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کو ان کے وطن میں زندہ رکھنے کے لیے” ہے، جس کے لیے فوری طور پر فائر بندی اور تمام انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔
غزہ، جہاں دو لاکھ سے زائد افراد مقیم ہیں، سنہ 2023ء کے سات اکتوبر سے جاری جنگ کے بعد انسانی بحران کی لپیٹ میں ہے، جس کے نتیجے میں زندگی کی بنیادی سہولیات اور صحت کی خدمات خاص طور پر شمالی علاقے میں شدید متاثر ہوئی ہیں۔
بین الاقوامی تنظیمیں خبردار کر رہی ہیں کہ غزہ میں صحت اور خوراک کی صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے، اور انروا نے اطلاع دی ہے کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں غذائی کمی کے کیسز مارچ تا جون اس سال کے دوران دوگنے ہو گئے ہیں، جو محاصرے اور بنیادی ضروریات کی کمی کا براہِ راست نتیجہ ہیں۔