دوحہ ۔(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قطر کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے تازہ ترین تجویز، جسے اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے قبول کر لیا ہے، مستقل جنگ بندی کے راستے کی ضمانت دیتی ہے اور اس وقت شہریوں کی جانیں بچانے کے لیے یہی بہترین پیشکش ہے۔
منگل کو دوحہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الانصاری نے کہا کہ ثالثی کرنے والے فریق قابض اسرائیل کے جواب کے منتظر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جواب کے لیے کوئی مقررہ وقت نہیں تاہم اطلاع ملی ہے کہ قابض اسرائیل اس تجویز کا جائزہ لے رہا ہے اور ہم جلد اور مثبت جواب کی امید رکھتے ہیں۔
الانصاری نے توقع ظاہر کی کہ بہت جلد معاہدہ طے پا جائے گا اور فوری طور پر اس پر عمل بھی شروع ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ زمینی سطح پر اس کی واحد ضمانت یہ ہے کہ دونوں فریق معاہدے پر کاربند رہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وزیرِاعظم و وزیرِخارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن کے ویتکوف کے ساتھ رابطے جاری ہیں اور مذاکراتی ماحول کو مثبت قرار دیا۔
تجویز کی تفصیلات
گذشتہ تین دنوں کے دوران قاہرہ میں مذاکرات ہوئے جن میں حماس نے تمام مزاحمتی دھڑوں کی شمولیت کو یقینی بنایا تاکہ موقف یکساں رہے اور قابض اسرائیل کو یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع نہ ملے کہ بات چیت حماس کی وجہ سے ناکام ہوئی اور شہریوں کو جارحیت کا سامنا کرنا پڑا۔
الجزیرہ کے صحافی تامر المسحال کے مطابق تجویز میں 10 اسرائیلی قیدیوں کی زندہ واپسی اور 18 لاشوں کے بدلے 1700 فلسطینی اسیران کی رہائی شامل ہے جن میں 45 عمر قید اور 15 بھاری سزاؤں والے اسیر بھی شامل ہیں۔
معاہدے کے تحت ابتدائی مرحلے میں 8 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور اسی کے ساتھ 60 دن کے لیے جنگ بندی شروع ہوگی۔ اس دوران مکمل جنگ بندی پر بات چیت جاری رہے گی۔
50 ویں دن دو مزید اسرائیلی قیدی رہا کیے جائیں گے اور اسرائیلی فوجیوں کی لاشیں بھی بتدریج حوالے کی جائیں گی۔
1700 فلسطینی اسیران میں سے 1500 وہ ہیں جنہیں قابض فوج نے 7 اکتوبر 2023ء کے بعد گرفتار کیا۔
حماس نے ثالثوں پر زور دیا کہ پہلے قابض اسرائیل کی منظوری حاصل کریں پھر ہی فلسطینی جواب دیں گے، تاہم ثالثوں نے یقین دہانی کرائی کہ یہ عمل آگے بڑھایا جائے گا۔
معاہدے کے مطابق قابض فوج سرحد سے ایک ہزار میٹر پیچھے ہٹے گی اور شہری آبادی سے کم از کم 1200 میٹر دور ہوگی تاکہ شمالی اور جنوبی غزہ میں امداد پہنچ سکے۔
قابض اسرائیل نے بیت حانون اور الشجاعیہ جیسے علاقوں میں 1200 میٹر کے اندر رہنے پر اصرار کیا جسے حماس نے محض شہریوں کو بھوک سے بچانے کے لیے قبول کیا۔
جنگ کی واپسی روکنے کا عہد
ثالثوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر دو ماہ کی مجوزہ جنگ بندی کے دوران مکمل جنگ بندی پر اتفاق نہ ہو سکا تو بھی قابض اسرائیل کو دوبارہ جنگ چھیڑنے سے روکا جائے گا، تاہم یہ شق تحریری طور پر معاہدے میں شامل نہیں۔
الجزیرہ کو ایک باخبر ذریعے نے بتایا کہ موجودہ تجویز ہی بہترین حل ہے تاکہ غزہ کے عوام کو مزید قتلِ عام سے بچایا جا سکے۔ اس کے تحت 60 دن کے لیے لڑائی رُک جائے گی اور قابض فوج اپنی پوزیشن تبدیل کرے گی تاکہ امداد کی فراہمی ممکن ہو سکے۔
تاحال قابض اسرائیل نے اس تجویز کو نہ قبول کیا ہے نہ مسترد۔ تاہم عبرانی ویب سائٹ “والا” کے مطابق اسرائیلی فوج کے تقریباً 80 ہزار اہلکار شہر غزہ کے محاصرے میں شریک ہوں گے۔ ایک فوجی عہدیدار نے اعتراف کیا کہ شہر غزہ پر قبضے کی کارروائی بڑے پیمانے پر ہوگی اور قابض فوج کے لیے شدید خطرات کا باعث بنے گی۔
اس سے قبل اسرائیلی نشریاتی ادارے نے خبر دی تھی کہ فوج کے سربراہ ایال زامیر نے اتوار کی شام شہر غزہ پر قبضے کے جنگی منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔