مقبوضہ بیت المقدس ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیل کی اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس اسحاق عُمیت نے خبردار کیا ہے کہ دنیا اب اسرائیلی جیلوں کو امریکہ کے بدنامِ زمانہ قیدخانہ “گوانتانامو” کے مترادف سمجھ رہی ہے۔ انہوں نے خاص طور پر اس بات پر تنقید کی کہ ریڈ کراس کو اُن فلسطینی قیدیوں سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی جو طوفان الاقصیٰ کی لڑائی کے بعد گرفتار کیے گئے تھے۔
عُمیت نے یہ موقف ایک خفیہ اجلاس میں اختیار کیا، جس میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے دی گئی اس درخواست پر غور کیا گیا کہ قیدیوں سے صلیبِ احمر کے نمائندوں کو ملاقات کی اجازت دی جائے۔ اجلاس میں صرف حکومتی نمائندے شریک تھے، جبکہ درخواست گزاروں کی نمائندگی نہیں کی گئی۔
عبرانی اخبار ہاآرتس کے مطابق عُمیت اور جج دافنا باراک-ایریز نے اجلاس کے دوران حکومت پر کڑی تنقید کی کہ وہ اسرائیل میں “سکیورٹی” قیدیوں سے ریڈ کراس کے دوروں کی اجازت دینے اور ان کی حالتِ زار سے متعلق معلومات فراہم کرنے سے انکار کر رہی ہے۔
عدالت نے حکومتی نمائندوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
“اب دنیا جو دیکھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیلی جیلیں گوانتانامو بن چکی ہیں۔ یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ قیدی بھوکے ہیں، درجنوں مر رہے ہیں، اور آپ عدالت کو محاذِ تنقید پر کھڑا کر رہے ہیں۔”
یہ خفیہ اجلاس اُس کے چند ماہ بعد ہوا جب حکومت نے قیدیوں سے ریڈ کراس کے دوروں کی اجازت دینے میں تاخیر کی۔ اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیموں نے فروری 2024ء میں عدالت سے درخواست دائر کی تھی کہ تنظیم کے نمائندے اسرائیلی جیلوں کا دورہ کر سکیں۔
ایتمار بن گویر کی دھمکی
اخبار کی رپورٹ کے جواب میں اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر نے اعلیٰ عدالت کے ججوں پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کے بیانات اسرائیل کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور مزاحمت کو تقویت دے رہے ہیں۔
بن گویر نے فلسطینی قیدیوں کو دھمکی دی کہ کسی بھی غیر ملکی ادارے کو دورے کی اجازت اُس وقت تک نہیں دی جائے گی جب تک کہ قابض فوج کے قیدی بھی “کسی غیر ملکی ادارے” کے دورے سے نہ گزریں۔
قابض اسرائیل نے اکتوبر 2023ء میں غزہ پر حملے کے آغاز کے بعد فلسطینی قیدیوں کے لیے صلیبِ احمر کے دورے روک دیے اور قیدیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے بھی انکار کر دیا۔
بن گویر ہمیشہ فلسطینی قیدیوں کے ساتھ سخت ترین رویہ اپناتے رہے ہیں۔ انہوں نے قیدیوں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا اور قید کے حالات میں غیر انسانی سختیاں نافذ کیں۔
گزشتہ جون/حزیران میں ہاآرتس کی ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ مجیدو جیل میں فلسطینی قیدی غذائی قلت کا شکار ہیں اور بعض بیماری کے باعث جاں بحق ہو گئے۔
گزشتہ جولائی میں اسرائیل کے جنرل پراسیکیوٹر کے دفتر کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ قیدیوں کو خوراک کی شدید کمی، پانی تک محدود رسائی اور بنیادی طبی سہولیات کی عدم فراہمی کا سامنا ہے۔