Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

قابض اسرائیل کی درندگی نے مریضوں کے ساتھ طبی عملے کو بھی بھوک سے نڈھال کر دیا:امریکی نرس

غزہ –(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کے جنوبی علاقے میں قائم ناصر میڈیکل کمپلیکس، جو محصورہ پٹی کا آخری سہارا سمجھا جا رہا ہے، وہیں فلسطینی نژاد امریکی نرس اماندا ناصر مریضوں کے بستر کے درمیان کھڑی آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہی ہیں۔ ان کے بقول قابض اسرائیل کی مسلط کردہ نسل کشی اور اجتماعی بھوک نے نہ صرف مریضوں بلکہ طبی عملے کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

اماندا ناصر 39 برس کی ہیں اور وہ گذشتہ ایک ہفتے سے غزہ کے ایمرجنسی وارڈ میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ روزانہ ہزاروں زخمی اور درجنوں شہید وہاں لائے جاتے ہیں۔ زیادہ تر مریض وہ ہیں جو قابض اسرائیل کی بھوک اور قحط مسلط کرنے کی پالیسی کا شکار ہیں۔ یہ پالیسی اس وقت مزید سخت ہو گئی جب تل ابیب نے مارچ 2025ء کے آغاز سے غزہ کا محاصرہ مزید کڑا کر دیا۔

انہوں نے بتایا کہ 7 اکتوبر 2023ء سے قابض اسرائیل، امریکہ کی سرپرستی میں، غزہ میں اجتماعی قتلِ عام کر رہا ہے۔ قتل، قحط، تباہی اور جبری ہجرت وہ جرائم ہیں جو قابض قوت پوری دنیا کے سامنے ڈٹائی کے ساتھ دہرا رہی ہے، عالمی عدالت انصاف کے فیصلے اور دنیا بھر کی اپیلیں سب نظرانداز کی جا چکی ہیں۔

وزارتِ صحت کے مطابق اس خونی مہم کے دوران 61 ہزار 897 فلسطینی شہید اور 1 لاکھ 55 ہزار 660 زخمی ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ صرف پیر تک 18 ہزار 430 معصوم بچے اور 9 ہزار 300 خواتین، جن میں 8 ہزار 505 مائیں شامل ہیں، شہید ہو چکی ہیں۔

اسپتالوں میں تباہی اور بے بسی

اماندا ناصر کہتی ہیں کہ ناصر میڈیکل کمپلیکس میں ان کا مشن انسانی خدمت ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ “صورتحال نہایت المناک ہے، صحت کا نظام آخری سانسیں لے رہا ہے۔”

ان کا کہنا ہے کہ ہسپتال کے پاس نہ وسائل ہیں نہ سہولتیں۔ طبی عملہ شدید خوف اور دباؤ میں کام کر رہا ہے۔ ہر روز درجنوں زخمی آتے ہیں جن کے زخم نہایت ہولناک ہوتے ہیں—سر، سینہ، پیٹ اور ہاتھ پاؤں کی ہڈیوں میں گولیاں اور شیل لگے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر نوجوان لڑکے ہیں جن کی عمریں بلوغت سے بیس برس تک ہیں اور ان میں سے بیشتر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ڈاکٹروں کو اکثر اعضا کاٹنے جیسے کٹھن فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ ادویات اور سہولتوں کی کمی کے باعث بے شمار مریض علاج سے محروم رہ جاتے ہیں۔ “اکثر ہمیں یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ کون مریض مصنوعی سانس کا حقدار ہے اور کس کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ یہ لمحے ناقابلِ بیان کرب کے حامل ہیں۔”

بھوک اور قحط کا عذاب

اماندا ناصر کے مطابق “غزہ کے عوام اور طبی عملہ سبھی بھوک کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ہر کوئی کمزور اور لاغر دکھائی دیتا ہے، بچے غذائی قلت کے باعث اسپتالوں میں دم توڑ رہے ہیں۔”

وزارتِ صحت کے مطابق صرف 2025ء کے آغاز سے اب تک 28 ہزار فلسطینی بچے، خواتین اور مرد غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں، جن میں سے 239 افراد، جن میں 106 بچے شامل ہیں، جاں بحق ہو گئے۔

فلسطینی شناخت پر فخر

اماندا ناصر اپنی فلسطینی شناخت پر فخر محسوس کرتی ہیں اور کہتی ہیں: “میں اپنے لوگوں کے ساتھ ہوں۔ انہوں نے اپنی دکھ بھری زندگیوں کے باوجود میرا پرتپاک استقبال کیا۔ ان کے بیچ مجھے تحفظ اور اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔”

آنکھوں میں نمی اور لہجے میں عزم لیے وہ دنیا سے مخاطب ہو کر کہتی ہیں: “ہمیں فوری جنگ بندی چاہیے، ہم چاہتے ہیں ایک آزاد فلسطینی ریاست۔ فلسطینی صرف ایک عام زندگی گزارنا چاہتے ہیں، وہ اس وحشت اور درندگی کے مستحق نہیں۔”

انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: “غزہ آ کر دیکھو کہ انسانیت پر کیا گزر رہی ہے۔” ساتھ ہی دنیا کے صحافیوں سے اپیل کی: “سچائی دنیا تک پہنچاتے رہو۔”

اماندا ناصر نے عالمی برادری سے بھی مطالبہ کیا کہ امریکہ اور یورپ میں فروخت ہونے والی ان مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے جو قابض اسرائیل کے جنگی جرائم اور نسل کشی کو فنڈ فراہم کرتی ہیں۔

واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک قابض اسرائیل، امریکی حمایت کے ساتھ، غزہ پر وحشیانہ حملے جاری رکھے ہوئے ہے، جس میں اب تک 61 ہزار 897 فلسطینی شہید، 1 لاکھ 55 ہزار 660 زخمی، 9 ہزار سے زائد لاپتا اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan