Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ کا محاصرہ اور بھوک: حکومتی میڈیا نے قابض اسرائیل کی جھوٹی کہانیوں کا پول کھول دیا

غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کے حکومتی میڈیا دفتر نے قابض اسرائیل کے حکومتی امور پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جھوٹ اور گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے اس منظم پالیسی کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے جس کا مقصد غزہ کے شہریوں کو دانستہ بھوکا رکھنا ہے۔ دفتر نے واضح کیا کہ منسق کا حالیہ بیان محض ایک فضول بہانہ ہے جس کا مقصد ایک ایسی جُرم کو ڈھانپنا ہے جسے عالمی شہادتوں اور مستند دستاویزی ثبوتوں سے ثابت کیا جا چکا ہے۔

قابض اسرائیل کے اس یونٹ نے ایک رپورٹ میں غزہ میں قحط کی موجودگی کو سراسر جھوٹ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ حماس جان بوجھ کر عوام کو گمراہ کرنے کے لیے غلط اعداد و شمار پھیلا رہی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ حماس غزہ کے ان مریضوں کو جو پہلے سے سنگین بیماریوں میں مبتلا ہیں۔غذائی قلت سے جاں بحق ہونے والے کے طور پر پیش کر رہی ہے، تاکہ قابض اسرائیل کی ساکھ کو خراب کر کے سیاسی فائدہ حاصل کیا جا سکے۔

اس کے جواب میں حکومتی میڈیا دفتر نے کہا کہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے جیسے عالمی ادارہ خوراک، اوچا اور عالمی ادارہ صحت کی رپورٹیں صاف بتاتی ہیں کہ غزہ میں بھوک اور غذائی قلت کی شرح اس قدر بڑھ چکی ہے کہ یہ قحط کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ان حالات کے باعث سینکڑوں شہری، جن میں درجنوں معصوم بچے شامل ہیں، جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ دفتر نے کہا کہ بین الاقوامی غیر جانبدار شواہد قابض اسرائیل کے جھوٹے بیانیے کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے یہ جواز تراشنا کہ کچھ متاثرین پہلے سے بیمار تھے، اسے اس کے قانونی اور اخلاقی جرم سے بری نہیں کرتا، کیونکہ یہ لوگ خوراک، علاج اور دواؤں کے منتظر تھے جو محاصرے کے باعث ان تک نہیں پہنچ سکیں، اس لیے ان کی موت براہِ راست بھوک اور دوائیوں کی کمی کا نتیجہ ہے۔

فلسطینی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق، جنگ کے ابتدائی مہینوں میں جب کچھ غذائی ذخائر باقی تھے، بھوک سے 4 اموات ہوئیں۔ لیکن جیسے جیسے پابندیاں بڑھتی گئیں، یہ تعداد 50 تک پہنچی اور 2 مارچ سنہ2025ء کو خوراک کی مکمل پابندی کے بعد 168 تک جا پہنچی۔

دفتر کے مطابق قابض اسرائیل نے غزہ کے زرعی اور لائیو اسٹاک سیکٹر کو مکمل تباہ کر دیا۔ سبزیوں کی سالانہ پیداوار 4 لاکھ 5 ہزار ٹن سے گھٹ کر صرف 28 ہزار ٹن رہ گئی، جبکہ 665 مویشی فارم اور پولٹری فارم تباہ کیے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ امدادی قافلوں کو نشانہ بنایا گیا، ان کا سامان لوٹ لیا گیا اور انہیں راستے میں روک کر محصور شہریوں تک پہنچنے سے روکا گیا۔

قابض اسرائیل نے 44 لنگر خانوں اور 57 فوڈ ڈسٹری بیوشن مراکز کو بھی تباہ کیا اور ان میں کام کرنے والے درجنوں کارکنوں کو قتل کیا۔ مزید برآں، امدادی تقسیم کے مراکز کو موت کے پھندے میں بدل دیا گیا، جہاں خوراک کے انتظار میں کھڑے شہریوں پر گولیاں چلائی گئیں۔

بیان میں اس حقیقت کی بھی نشاندہی کی گئی کہ قابض اسرائیلی وزرا نے علناً اس بھوک اور محاصرے کی پالیسی کا اعتراف کیا ہے۔ قابض اسرائیل کے وزیر سکیورٹی یسرائیل کاتس نے کہا تھا، “ہم غزہ سے ہر چیز کاٹ دیں گے: نہ بجلی، نہ کھانا، نہ پانی، نہ گیس”۔ اسی طرح ایتمار بن غویر اور بتسلئیل سموٹریچ نے اعلان کیا، “غزہ میں گندم کا ایک دانہ بھی داخل نہیں ہونے دیں گے”۔ حتیٰ کہ کچھ وزرا نے غزہ کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی بھی بات کی۔

اگرچہ عالمی دباؤ کے تحت 27 جولائی کو محدود پیمانے پر کچھ امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے دیا گیا، لیکن حکومتی میڈیا دفتر کے مطابق قابض اسرائیل اب بھی 430 سے زائد غذائی اشیاء، جن میں گوشت، مچھلی، پنیر، دودھ کی مصنوعات، سبزیاں اور پھل شامل ہیں، کی رسائی پر مکمل پابندی عائد کیے ہوئے ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan