غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیل اور اس کے اتحادی مسلسل اس تلخ حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش میں ہیں کہ غزہ کے باسی قتل، بھوک اور محاصرے کے عذاب میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ سب اس وقت بھی ہو رہا ہے جب شہداء کے جنازے، ٹوٹے گھروں اور پھٹے خیموں کی تصویریں دنیا بھر میں پھیل چکی ہیں اور جب روز بہ روز بڑھتی قحط کی ہولناک تصاویر سب کے سامنے ہیں۔ مگر اب ایسے غیرملکی ڈاکٹر اور نرسیں، جنہوں نے غزہ میں یہ قیامت اپنی آنکھوں سے دیکھی، کھلے الفاظ میں دنیا کو بتا رہے ہیں کہ قابض اسرائیل جھوٹ بول رہا ہے اور ان کی جھوٹی کہانیاں حقیقت کے سامنے ٹک نہیں سکتیں۔
یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے ان طبی ماہرین کی گواہیاں، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی رپورٹس سے میل کھاتی ہیں جن میں واضح کہا گیا ہے کہ غزہ کی صورت حال انتہائی خوفناک ہے اور ہر دن کے ساتھ مزید بے گناہ جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ اس کے برعکس قابض اسرائیل اور اس کے حمایتی اپنے جھوٹ پر اڑے ہوئے ہیں۔
فرانسیسی اخبار ’لوموند‘ نے رپورٹ کیا کہ پانچ ڈاکٹروں اور دو نرسوں نے جو نومبر سنہ2023ء سے مختلف اوقات میں غزہ میں انسانی مشن انجام دے چکے ہیں، بتایا کہ وہاں عام لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ تجربہ ان کے دل و دماغ پر انمٹ نقوش چھوڑ گیا ہے۔
صدی کا صدمہ
فرانسیسی ایمرجنسی ڈاکٹر مہدی الملالی نے تین ہفتے غزہ میں ’’الرحمت‘‘ اور ’’بال میڈ یورپ‘‘ کے مشن کے تحت گزارے، کہتے ہیں کہ الفاظ اس جہنم کی تصویر کشی نہیں کر سکتے۔ ان کے بقول ’’میرا ایک حصہ وہیں رہ گیا ہے۔ میں سوچنا بند نہیں کر سکتا‘‘۔
ہڈیوں کے ماہر سرجن فرانسوا جوردیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں گزارے دنوں نے انہیں بدل کر رکھ دیا ۔یہاں بمباری مسلسل ہوتی ہے، لوگ کہیں جا نہیں سکتے اور ہر کوئی اس کا شکار ہے‘‘۔
ان سات طبی اہلکاروں کا کہنا تھا کہ زخمی اور شہداء میں بچوں کی شرح غیرمعمولی حد تک زیادہ ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قابض اسرائیل کی بمباری اندھا دھند اور بلا تفریق جاری ہے۔
غزہ پہنچتے ہی انہیں ہر طرف ملبہ، ڈھیر اور عمارتوں کے ڈھانچے ملے۔ ڈرونز کی بھنبھناہٹ اور آسمان چیرتی دھماکوں کی آوازیں ہر وقت کانوں میں گونجتی رہیں۔
بمباری جو کبھی نہیں رکتی
فرانسوا جوردیل کے مطابق کئی مواقع پر ’’ایک منٹ میں پانچ سے چھ میزائل گرائے گئے‘‘۔ وہ کہتے ہیں ’’ بمباری اس قدر شدید تھی جیسے زلزلہ آیا ہو۔ ہسپتال لرزتا رہا اور مریض زمین پر چیتھڑوں میں بدل چکے تھے‘‘۔
تجربہ کار نرس کارین ہوستر جنہوں نے سنہ2014ء سے دنیا بھر میں بیس سے زائد انسانی مشن انجام دیے، سنہ2024ء میں تین بار غزہ گئیں۔ ان کے مطابق، ’’مریض زمین پر پڑے تھے، ان کے جسم چاک تھے۔ جب کوئی دم توڑ دیتا تو ہم اسے ایک کونے میں کر دیتے کیونکہ نئے زخمی آ رہے ہوتے اور ہمیں وقت نہ ملتا‘‘۔
مہدی الملالی یاد کرتے ہیں کہ انڈونیشی ہسپتال میں ایک ہی خاندان کے تیس افراد زخمی حالت میں آئے، جو سب سو رہے تھے جب دھماکہ ہوا۔ ’’ماں کو بتایا گیا کہ ایک بیٹا شہید ہو چکا ہے، اس نے پیشانی چومی، پھر باقی بچوں کو گننے لگی اور چوتھے کو ڈھونڈتی رہی جو کبھی نہیں ملا‘‘۔
موت کا معمول بن جانا
سوئس نرس سونام درائرکورنوت بتاتی ہیں کہ دو ماہ کے محاصرے کے بعد غزہ میں آٹا ختم ہو چکا تھا۔ شدید جلنے والے مریضوں کو صحت یابی کے لیے روزانہ تین ہزار کیلوریز کی ضرورت تھی جو دستیاب نہ تھی۔
ان کے مطابق ’’کچھ بچے صدمے سے اس قدر گنگ ہو جاتے ہیں کہ حرکت کرتے ہیں، نہ بولتے ہیں اور نہ روتے ہیں‘‘۔
فرانسیسی اینستھیزیا ماہر اوریلی گودار کو ایک پچاس سالہ شخص یاد ہے جس کی ٹانگ زخمی تھی اور وہ کہہ رہا تھا، ’’کیا میں دو گھنٹے جا سکتا ہوں؟ مجھے اپنے بیٹوں کو دفن کرنا ہے‘‘۔ یہ جملہ اس کے لہجے میں ایسا سکون لیے تھا جو رگوں میں سنسنی دوڑا دے۔
انہوں نے بتایا کہ رفح مٹ چکا ہے، خان یونس کھنڈر ہے، شمال بنجر ہو چکا ہے اور اسرائیلی پابندیوں نے لوگوں کو سانس لینے تک سے محروم کر دیا ہے۔
کارین ہوستر کہتی ہیں کہ ’’میں نے عراق، ہیٹی اور کانگو دیکھی مگر ایسا منظر کہیں نہیں ملا جہاں لوگوں کو جینے کا حق ہی نہ ہو۔ قابض اسرائیل یہ سب روک سکتا ہے مگر جان بوجھ کر غیرانسانی رویہ اختیار کرتا ہے‘‘۔
انسانیت کا سوال
رپورٹ میں کہا گیا کہ سات اکتوبر سے اب تک ساٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ زخمیوں کی کثرت نے مرہم، ادویات اور اینستھیزیا تک کو نایاب بنا دیا ہے۔
فرانسیسی سرجن سمیر عدو کہتے ہیں، ’’میں جنگی زخموں کے لیے تیار تھا مگر یہ دیکھ کر صدمہ ہوا کہ زیادہ تر مریض بچے اور عورتیں ہیں‘‘۔
انہوں نے مزید کہا، ’’میں میڈیا کو بچوں کے کٹے اعضا اور اس جنگ کی ہولناکی سناتا ہوں مگر کوئی ردعمل نہیں ملتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہماری انسانیت باقی ہے؟‘‘
غزہ میں کام کرنے والے طبی ماہرین کو احساس ہے کہ ان کی موجودگی قیمتی ہے، اسی لیے وہ واپس جانا چاہتے ہیں، مگر قابض اسرائیل ان کے اجازت نامے منسوخ کر دیتا ہے۔
مہدی الملالی کا کہنا ہے، ’’ہم اپنے فلسطینی ساتھیوں کی بدولت اس جہنم میں ڈٹے ہیں‘‘۔ ان کے مطابق، ’’اہل غزہ نفرت نہیں رکھتے، وہ صرف اس قتل عام کا خاتمہ اور انصاف چاہتے ہیں‘‘۔