غزہ — (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیل کی نہ ختم ہونے والی درندگی اور ظلم کی زنجیر فلسطینیوں کی جانیں لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔ ایسی گھناونی سازشوں میں ایک نیا اور بھیانک باب کھولا گیا ہے جس کا پردہ ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی تازہ رپورٹ نے بے نقاب کیا ہے۔ اس رپورٹ میں غزہ کی جنوب میں واقع دو طبی کلینکس کے مریضوں اور مشاہدات کی روشنی میں ایک ایسا خونی منصوبہ سامنے آیا ہے جو انسانیت کی عزت و وقار کی پامالی ہے اور نسل کشی کی مکمل منصوبہ بندی کی عکاسی کرتا ہے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ قابض ریاست کی نگرانی میں کام کرنے والا ادارہ “غزہ ہیومنٹیرین فاؤنڈیشن” انسانی امداد کے پردے میں فلسطینیوں کو جان بوجھ کر موت کے منہ میں دھکیل رہا ہے۔ یہ ادارہ وہ مقامات چلا رہا ہے جہاں خوراک تقسیم کی جاتی ہے، لیکن یہ مقامات قاتل کمند بن چکے ہیں جہاں بھوکے فلسطینی اپنی جان کے خطرے کے باوجود مدد کے لیے پہنچتے ہیں مگر وہاں سے زندہ نکلنا محال ہے۔ ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے فوری طور پر اس ادارے کو تحلیل کرنے اور اقوام متحدہ کی امدادی کارروائیوں کو بحال کرنے کی سخت سفارش کی ہے۔
مدد نہیں منظم قتل عام
“یہ امداد نہیں، بلکہ منظم قتل ہے”— یہی عنوان ہے اس رپورٹ کا جس میں بتایا گیا ہے کہ جون سے جولائی سنہ 2025ء کے دوران المواصی اور العطار کلینکس نے 1380 زخمیوں کو طبی سہولت دی، جن میں 28 شہداء بھی شامل تھے۔ سب سے دل دہلا دینے والی بات یہ ہے کہ 71 بچے گولیوں کا نشانہ بنے، جن میں 25 بچے پندرہ سال سے کم عمر تھے، جن کی معصومیت کے ساتھ یہ سفاکانہ کھیل انسانی تاریخ میں ایک سیاہ باب ہے۔
بھوک اور محرومی میں گھری فلسطینی فیملیز اپنے نوجوانوں کو خوراک کے مقامات پر بھیجنے پر مجبور ہیں، کیونکہ وہ جسمانی طور پر مضبوط ہوتے ہیں، مگر یہ مقامات موت کے کمین گاہ بن چکے ہیں۔ رپورٹ میں ایک بارہ سالہ بچے کی داستان شامل ہے جس کی پیٹ میں گولی لگی اور پانچ لڑکیاں بھی زخمی ہوئی ہیں، جن میں ایک آٹھ سالہ بچی سینے پر گولی کا نشانہ بنی۔
ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی جنرل ڈائریکٹر راکیل آیوورا نے کہا ہے کہ “ہم نے بچوں کو خوراک کے لیے آتے ہوئے گولیوں سے زخمی ہوتے، ٹکراؤ میں دم گھٹتے اور روندے جاتے دیکھا۔ پوری بھیڑ کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ پچھلے پچپن سالوں میں ہم نے اس طرح کا منظم ظلم کم ہی دیکھا ہے۔” انہوں نے واضح کیا کہ “موسسہ غزہ الانسانیہ” ایک نقاب ہے جو قاتلوں کی خون آلود سیاست کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔
قتل عام کے ناقابل تردید شواہد
رپورٹ کے تجزیے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زخمیوں میں 11 فیصد کے گولیاں سر اور گردن میں لگی ہیں اور 19 فیصد زخمی سینے، پیٹ اور پیٹھ میں گولیوں کا شکار ہیں، جو واضح طور پر جان بوجھ کر حملوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ خان یونس کے تقسیم مقامات پر زخمیوں کی ٹانگوں میں یہ گولیاں انتہائی مہارت سے لگائی گئی ہیں، جو انسانی جانوں کو ہدف بنانے کی مصدقہ دلیل ہے۔
زخمی محمد ریاض طباسی نے دل دہلا دینے والی بات کہی، “ہم ذبح کیے جا رہے ہیں۔ مجھے دس مرتبہ گولی لگی۔ میں نے اپنے اردگرد بیس لاشیں دیکھی جو سر اور پیٹ میں گولیوں سے لرز رہی تھیں۔”
مئی سنہ 2025ء میں قابض اسرائیل نے اقوام متحدہ کی انسانی امداد کی کارکردگی کو ختم کر کے “موسسہ غزہ الانسانیہ” کے تحت اپنی فوجی نگرانی میں امداد کی تقسیم شروع کی، جسے امریکی نجی سیکیورٹی کمپنیوں نے تحفظ فراہم کیا۔ یہ نہایت خطرناک منصوبہ ایک “نیا حل” کے طور پر پیش کیا گیا، مگر حقیقت میں یہ ایک خونی سازش ہے جس کا مقصد غزہ پر جاری مکمل محاصرے کے ذریعے فلسطینیوں کو بھوکا مار کر ان کی نسل کشی کو منطقی شکل دینا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سات ہفتوں کے دوران اس ادارے کے مقامات پر 196 شدید دھکم پیل کے واقعات ہوئے جن میں ایک پانچ سالہ بچے کے سر میں گولی لگی اور ایک خاتون دم گھٹنے سے ہلاک ہو گئی۔ مزید برآں، قحط کی حالت میں بھوکوں نے ایک دوسرے پر حملے کیے، مدد کے سامان چھینے، اور زخمیوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔ ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے ان تمام مظالم کو انسانی وقار کی شدید پامالی قرار دیا ہے۔
ایمرجنسی کوآرڈینیٹر آیتور سبالغوگیاسکوا نے بتایا کہ “یکم اگست کو امریکی نمائندے کی “موسسہ غزہ الانسانیہ” کی مقامات پر آمد کے دن 15 سالہ نوجوان محمود جمال العطار خوراک لینے کے دوران گولی لگ کر شہید ہو گیا۔”
رپورٹ کے مطابق جولائی سے اگست کے آغاز تک کلینکس نے 186 افراد کو گولیوں، شیلوں اور جسمانی حملوں کی وجہ سے علاج فراہم کیا جن میں سے دو بعد میں شہید ہو گئے۔ تین اگست کو مزید تین زخمی کلینکس میں لائے گئے جن میں ایک کی گردن میں گولی لگی اور دو کے سر پر گولیاں تھیں۔
ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے اس دردناک حقیقت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تمام امدادی مقامات بین الاقوامی انسانی حقوق اور قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں اور ان کا فوری بند ہونا لازم ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی آزاد، غیر مشروط اور غیر سیاسی امدادی کارروائیوں کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ رپورٹ ایک دہائیوں سے قابض اسرائیل کی فلسطینی عوام پر جاری نسل کشی، اجتماعی قتل عام اور جنگی جرائم کا شفاف اور تلخ عکس ہے۔ غزہ کی خاک پر بچوں کے لہو سے رچی اس داستان میں انسانی ہمدردی کے نام پر ایک اور قاتل منصوبہ چھپا ہوا ہے جو قابض ریاست کی سفاکیت اور درندگی کی پرزور تصدیق ہے۔