دوحہ –(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے رہنما طاہر النونو نے واضح کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات خود قابض اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے فیصلے سے روک دیے گئے ہیں۔
طاہر النونو نے اپنے بیان میں بتایا کہ گزشتہ ماہ کے اختتام پر ہونے والے مذاکرات کے آخری دور میں قابض اسرائیل کے ساتھ ایک حتمی معاہدے تک پہنچنے کے قریب تھے، جو غزہ پر وحشیانہ جارحیت کو روک سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ مذاکرات نیتن یاہو کے حکم پر رکے ہیں، جو اس وقت بین الاقوامی فوجداری عدالت کو غزہ میں جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزام میں مطلوب ہیں، اور انہیں اس فیصلے میں مشرقِ وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ تعطل اس وقت پیدا ہوا جب امریکی اور اسرائیلی وفود مذاکرات سے الگ ہو گئے۔
طاہر النونو کے مطابق نیتن یاہو اسرائیلی عوام کو دھوکہ دینے کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔ وہ بظاہر قیدیوں کی رہائی کو اپنی ترجیح قرار دیتے ہیں، مگر عملی طور پر اس کے برعکس بات کرتے ہیں؛ غزہ پر قبضے کی بات کرتے ہیں، مذاکرات کی میز پر واپسی سے انکار کرتے ہیں اور اس عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حماس فوری طور پر مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ غزہ کی پٹی میں کافی مقدار میں امداد اور غذائی سامان داخل ہونے دیا جائے تاکہ قابض اسرائیل کی مسلط کردہ بھوک کی پالیسی ختم ہو سکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حماس کی قیادت روزانہ قطر اور مصر کے برادر ثالثوں کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ غزہ کے عوام کو بھرپور اور باعزت طریقے سے امداد فراہم کی جا سکے، اور دونوں ممالک زیادہ سے زیادہ امداد پہنچانے کی مثبت کوششیں کر رہے ہیں۔
طاہر النونو نے وضاحت کی کہ حماس علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سرگرم ہے تاکہ امداد کی ترسیل یقینی بنائی جا سکے اور فلسطینی عوام پر مسلط کی گئی بھوک اور نسل کشی کی اس جنگ کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں حماس کو عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ اپنے طویل اور مضبوط تعلقات کا سہارا ہے، بالخصوص قطر اور مصر کے ساتھ تعلقات کا۔
علاقائی قوتوں کے زیرِ اثر ہونے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے طاہر النونو نے کہا کہ حماس کا فیصلہ مکمل طور پر آزاد ہے اور یہ صرف فلسطینی عوام کے مفادات سے جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے اس تاثر کو بے بنیاد قرار دیا کہ ایران یا کسی اور فریق کا حماس کے فیصلوں پر اثر ہے، البتہ انہوں نے اعتراف کیا کہ حماس ایران سمیت عرب و اسلامی دنیا اور امت کے دیگر حصوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتی ہے، لیکن یہ تعلقات کسی بیرونی مداخلت کی بنیاد پر نہیں، بلکہ باہمی مفاہمت اور احترام کی بنیاد پر قائم ہیں۔