جنیوا ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے قابض اسرائیل پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی امداد کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، تاکہ اپنے عسکری اور جیوپولیٹیکل مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ ماہرین نے خبردار کیا کہ یہ عمل نہ صرف بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ انسانی ہمدردی کے بنیادی تصور پر بھی گہرا وار ہے، جو دنیا بھر میں امداد پر اعتماد کو متزلزل کر سکتا ہے۔
ماہرین نے واضح کیا کہ قابض اسرائیل ایک قابض قوت کی حیثیت سے بین الاقوامی قوانین خصوصاً جنیوا کنونشنز اور ہیگ کے ضابطوں کے تحت مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے عام شہریوں کے تحفظ اور ان کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کا ذمہ دار ہے۔ ان میں خوراک، پانی اور طبی سہولیات جیسی ضروریات شامل ہیں۔
اپنے بیان میں اقوام متحدہ کے ماہرین نے “گلوبل ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن” (GHF) کے کردار پر شدید تشویش ظاہر کی، جو فروری سنہ2025ء میں اسرائیلی اور امریکی تعاون سے قائم کی گئی تھی تاکہ غزہ میں نام نہاد امداد تقسیم کی جا سکے۔ ماہرین نے اس ادارے کو ایک خطرناک مثال قرار دیا جو انسانی امداد کو ایک ’ہائبرڈ جنگ‘ کے ہتھیار میں تبدیل کر رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ نام نہاد انسانی ادارہ اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں، امریکی کنٹریکٹرز اور مشکوک غیر سرکاری اداروں سے منسلک ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ، پر لازم ہے کہ وہ فوری طور پر اس معاملے پر توجہ دے اور انسانی امداد کی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لیے سخت نگرانی کرے۔
انہوں نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ غاصب صہیونی ریاست کی افواج اور اس کے غیر ملکی کنٹریکٹرز نے “GHF” کے زیر انتظام قائم کیے گئے امدادی مراکز کے اردگرد امداد کے متلاشی فلسطینیوں کو مسلسل نشانہ بنایا ہے، جو کہ بین الاقوامی قوانین کی نہایت سنگین خلاف ورزی ہے۔
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق خوراک کی تلاش میں نکلنے والے 1500 سے زائد فلسطینی شہید اور 4000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 859 افراد کو ان مقامات کے قریب قتل کیا گیا جہاں “GHF” کی سرگرمیاں جاری تھیں۔ جبکہ غزہ میں قائم سرکاری میڈیا آفس کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
ماہرین نے مزید کہا کہ سب سے زیادہ متاثرہ طبقات جیسے خواتین، بچے، معذور افراد اور بزرگ شہری ان امدادی مراکز تک پہنچنے میں شدید رکاوٹوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے GHF کو ایک انسانی ادارہ کہنا عالمی انسانی اصولوں کی توہین اور ایک بے شرمانہ فریب قرار دیا۔
یہ سانحہ اس وقت رونما ہو رہا ہے جب غزہ کی 90 فیصد سے زائد آبادی کو جبری طور پر بے گھر کیا جا چکا ہے۔ جنگ کے آغاز سے اب تک شہداء کی تعداد 60 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں بھوک کا شکار ہونے والے سینکڑوں بچے بھی شامل ہیں۔ صرف حالیہ ہفتوں میں وزارت صحت نے بھوک اور غذائی قلت سے 180 اموات کی تصدیق کی ہے، جن میں 93 معصوم بچے شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ شہری آبادی کو بھوکا رکھنا، امداد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا یا اس میں تاخیر پیدا کرنا نہ صرف ایک غیر انسانی عمل ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کے تحت ایک کھلی جنگی مجرمانہ حرکت ہے۔ خاص طور پر جب قابض اسرائیل کے خلاف نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کی دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ تصدیق ہو چکی ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ خوراک، پانی اور ادویات کی فراہمی کسی کا احسان نہیں بلکہ قابض ریاست کی ایک قانونی ذمہ داری ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف پہلے ہی اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے اور اسے ختم کرنے کا حکم دے چکی ہے، جس میں قابض افواج کی واپسی، ناجائز بستیوں کا خاتمہ اور فلسطینی وسائل کی لوٹ مار کو روکنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
ماہرین نے زور دیا کہ قابض اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ عالمی عدالت انصاف کے احکامات کی پابندی کرے۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فوری اور ٹھوس اقدامات کریں، جن میں اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی پر مکمل پابندی، تجارتی و سرمایہ کاری کے معاہدوں کی معطلی اور ان کمپنیوں کے خلاف کارروائی شامل ہے جو فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم میں شریک ہیں۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے آخر میں خبردار کیا کہ اگر اسرائیل کو سزا سے بچایا جاتا رہا تو انسانی امداد بھی جدید جنگوں کی ایک اور قربانی بن سکتی ہے۔ انہوں نے “گلوبل ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن” کو ختم کرنے، اس کے منتظمین کو احتساب کے کٹہرے میں لانے اور زندگیاں بچانے والی امداد کی فراہمی کا اختیار اقوام متحدہ اور ماہر انسانی تنظیموں کے سپرد کرنے پر زور دیا۔