(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )
عبرانی اخبار “ہارٹز” کی جانب سے منگل کے روز شائع کردہ چشم کشا رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صربیا نے سال کے پہلے چھ ماہ میں قابض اسرائیل کو 55.5 ملین یورو سے زائد مالیت کے ہتھیار فروخت کیے، جس سے پچھلا سالانہ ریکارڈ 48 ملین یورو ٹوٹ گیا۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود ہوا کہ صربیا نے قابض ریاست کو اسلحے کی برآمدات بند کرنے کا باضابطہ اعلان کیا تھا۔
یہ انکشاف اس وقت سامنے آیا ہے جب محض ڈیڑھ ماہ قبل 23 جون کو صربیا کے صدر الیگزینڈر وُچچ نے اعلان کیا تھا کہ “ہم نے سب کچھ روک دیا ہے، اب کسی بھی اسلحہ برآمدی فیصلے کے لیے خاص اجازت درکار ہو گی”۔ مگر اس بیان کے چند ہی گھنٹوں بعد اسرائیلی فضائیہ کا ایک مال بردار بوئنگ 747 طیارہ بلغراد ایئرپورٹ پر اترا، اس میں اسلحہ لادا گیا اور طیارہ واپس قابض اسرائیل کے جنوبی علاقے نقب میں واقع نبطیم فضائی اڈے پر روانہ ہو گیا۔
“ہارٹز” اور “بی آئی آر این” کی مشترکہ تحقیق کے مطابق سنہ2025ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران کم از کم 16 اسرائیلی مال بردار پروازیں بلغراد پہنچیں جن کے ذریعے اسلحہ اور گولہ بارود تل ابیب منتقل کیا گیا، جبکہ دوسری طرف قابض اسرائیل غزہ پر انسانیت سوز نسل کش جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔
صربیا کی کسٹمز اور برآمدی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ صربیا کی سرکاری اسلحہ ساز کمپنی “یوگو امپورٹ” نے بیشتر برآمدات کی سربراہی کی، جس کے ساتھ چار دیگر صرب کمپنیوں نے بھی قابض اسرائیل کو اسلحہ مہیا کیا۔ ان میں “ایڈیپرو” اور “رومیکس” جیسی کمپنیاں شامل ہیں جنہوں نے اسرائیلی کمپنی “تاعس معراخوت” کو بارود فراہم کیا۔ یہ کمپنی “ایل بٹ” گروپ کی ایک ذیلی شاخ ہے جو میزائل اور گولہ بارود کی تیاری میں مہارت رکھتی ہے۔
صدر وُچچ نے پابندی کے اعلان سے چند روز قبل ہی اعتراف کیا تھا کہ صربیا واحد یورپی ملک ہے جو قابض اسرائیل کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ تاہم بعد میں وہ اس اعلان سے پیچھے ہٹ گئے اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ “آج کی صورتحال مختلف ہے”۔ “ہارٹز” نے اشارہ دیا ہے کہ روسی دارالحکومت کی طرف سے یوکرین کو فوجی حمایت دینے پر صربیا کو ملنے والی سرزنش شاید اس یوٹرن کی وجہ ہو۔
ایک صحافی کے سوال پر کہ پابندی کے اعلان کے بعد اسرائیلی مال بردار طیارہ بلغراد کیوں اترا، صدر وُچچ کا جواب تھاکہ “میں آپ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ کیا اترا اور کیا روانہ ہوا”۔
صرب حکومت تاحال اس بات سے پردہ اٹھانے کو تیار نہیں کہ کس قسم کا اسلحہ قابض اسرائیل کو بھیجا گیا ہے، حالانکہ جنگی گولہ بارود کی فراہمی بدستور جاری ہے۔ اس دوران عالمی برادری کی جانب سے غزہ میں جاری قتل عام پر تنقید میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
“ہارٹز” کی ایک اور رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی کمپنی “ایل بٹ” نے حالیہ دنوں میں صربیا کو 335 ملین ڈالر مالیت کے جدید ڈرونز اور توپ خانہ جات فراہم کیے ہیں۔ دوسری جانب صرب کمپنی “رومیکس” نے اسرائیلی کمپنی “یشیبرا” کو گولہ بارود فراہم کیا۔ “یشیبرا” وہ کمپنی ہے جو دنیا بھر میں احتجاج کو کچلنے کے لیے استعمال ہونے والے “غیر مہلک ہتھیار” بناتی ہے، جن میں آنسو گیس شامل ہے، جو بالخصوص افریقی ممالک میں مظاہرین کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔
قابض اسرائیل میں یہی کمپنی جیل انتظامیہ، پولیس اور قابض فوج کو بھی اپنی مصنوعات فراہم کرتی ہے۔ مذکورہ تحقیق میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ “یشیبرا” عالمی سطح پر 40 سے زائد ممالک کو ہتھیار برآمد کرتی ہے، جن میں امریکہ، کینیڈا، کولمبیا، افریقہ، ایشیا اور یورپ کے کئی ممالک شامل ہیں۔
ادھر غزہ اس وقت اپنی تاریخ کی بدترین انسانی بحران کا شکار ہے۔ بدترین قحط اور وحشیانہ نسل کشی کے درمیان ہسپتال دوائیں، طبی آلات اور ضروری سامان کی شدید قلت کا شکار ہو چکے ہیں۔ تشخیصی اور علاج کی صلاحیتیں تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔
قابض اسرائیل نے 7 اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ میں جو نسل کشی کی جنگ چھیڑ رکھی ہے اس میں قتل عام، بھوکا رکھنا، تباہی اور جبری نقل مکانی سب شامل ہیں۔ ان مظالم پر اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف کی کھلی ہدایات اور احکامات بھی قابض اسرائیل نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیے۔
امریکی پشت پناہی میں جاری اس نسل کشی نے اب تک 2 لاکھ 10 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید یا زخمی کیا ہے جن میں اکثریت معصوم بچوں اور عورتوں کی ہے۔ 9 ہزار سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں جبکہ لاکھوں افراد دربدر ہو چکے ہیں۔ شدید بھوک اور قحط نے بھی سینکڑوں فلسطینیوں کی جانیں لے لی ہیں۔