نیویارک – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر فولکر ترک نے غزہ کی موجودہ صورت حال کو انسانیت کے لیے شرمناک اور ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قابض اسرائیل کے اقدامات کھلے عام جنگی جرائم ہیں۔
پیر کے روز جاری کردہ ایک بیان میں فولکر ٹورک نے کہا کہ”غزہ سے بھوک سے بلکتے ہوئے انسانوں کی جو تصویریں سامنے آ رہی ہیں، وہ دل دہلا دینے والی اور ناقابل برداشت ہیں”۔
انہوں نے کہا کہ صورتحال جس نہج پر پہنچ چکی ہے، وہ ہماری اجتماعی انسانیت کی توہین ہے۔ ہماری اولین ترجیح اب جانیں بچانا ہونی چاہیے۔
انہوں نے واضح کیا کہ قابض اسرائیل اب بھی غزہ میں انسانی امداد کے داخلے پر سخت پابندیاں لگا رہا ہے، اور جو معمولی مقدار میں امداد داخل ہونے دی جاتی ہے، وہ بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدیدار نے قابض اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اور بلا کسی رکاوٹ کے انسانی امداد کو غزہ میں داخل ہونے دے، کیونکہ
“شہریوں کو خوراک سے محروم رکھنا نہ صرف جنگی جرم ہو سکتا ہے بلکہ یہ انسانیت کے خلاف جرم بھی تصور کیا جائے گا۔”
واضح رہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے 7 اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ پر جارحیت کا آغاز کیا تھا، جو آج مسلسل 668 ویں روز بھی جاری ہے۔ اس دوران غزہ کو مکمل محاصرے، قحط، اور منظم قتل عام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
قابض اسرائیلی ریاست غزہ کے ہر علاقے میں امداد کے طلبگار نہتے فلسطینی شہریوں کو بھی جان بوجھ کر نشانہ بنا رہی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق محصور علاقے میں قحط اور بھوک کی وجہ سے شہداء کی تعداد بڑھ کر 180 ہو چکی ہے، جن میں 93 معصوم بچے شامل ہیں۔
یہ الم ناک اعداد و شمار اس وحشیانہ جارحیت کی سنگینی کو واضح کرتے ہیں، جو دنیا کی خاموشی اور مجرمانہ چشم پوشی کے سائے میں جاری ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور آزاد دنیا کے تمام با ضمیر افراد سے اپیل کرتا ہے کہ وہ غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی فوری مدد کے لیے عملی اقدامات کریں، قابض اسرائیل کا احتساب کریں اور غزہ کی نسل کشی کو روکنے کے لیے مؤثر عالمی دباؤ قائم کریں۔