غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ میں فلسطینی وزارت صحت کے جنرل ڈائریکٹر ڈاکٹر منیر البرش نے خبردار کیا ہے کہ پانی کی آلودگی کے باعث ایک سنگین وائرس بیماری، جسے متلازمہ غیلان باریہ کہا جاتا ہے، تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس کا علاج غزہ میں دستیاب نہیں۔
ڈاکٹر البرش نے الجزیرہ نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ وائرس اچانک جسمانی پٹھوں کو حرکت دینے کی صلاحیت ختم کر دیتا ہے۔ یہ مرض پہلے ٹانگوں کو متاثر کرتا ہے، پھر اوپر کی طرف بڑھتا ہے اور بچوں میں خاص طور پر زیادہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں اب تک 95 افراد اس مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں جن میں 45 بچے شامل ہیں۔ متاثرہ افراد کو نیورولوجیکل ردعمل ختم ہونے، سانس لینے میں دشواری اور زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
وزارت صحت نے پیر کے روز اعلان کیا کہ متلازمہ غیلان باریہ کے باعث تین افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جن کی موت غیر معمولی انفیکشن اور شدید غذائی قلت کی وجہ سے ہوئی۔
وزارت صحت نے ایک بیان میں اس مرض کے پھیلاؤ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی تباہ حال صحت کی سہولیات اور ادویات کی کمی اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے میں رکاوٹ ہیں۔
ڈاکٹر البرش نے کہا کہ وزارت صحت نے پہلے بھی اس بیماری کے پھیلاؤ کے بارے میں خبردار کیا تھا اور عالمی ادارہ صحت کو بھی مطلع کیا تھا، لیکن قابض اسرائیل کی درندگی کی وجہ سے لاکھوں فلسطینی یا تو بمباری میں مارے جا رہے ہیں یا امدادی مراکز میں قتل کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے غزہ کے انسانی حالات کی سنگینی کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے لوگ محصور ہیں اور وہ پورے علاقے کے صرف 18 فیصد حصے میں رہ رہے ہیں۔ ہر چالیس ہزار افراد کو ایک کلومیٹر مربع میں سمو دیا گیا ہے جو بیماریوں کی تیزی سے افزائش کا باعث بن رہا ہے۔
ڈاکٹر البرش نے کہا کہ بچوں میں متعدی امراض اور سانس کی بیماریاں عام ہو چکی ہیں، اور سنہ2025ء میں 1116 کیسز میں بخار شوکیہ کی تشخیص ہوئی ہے۔ بچوں کی حالت خاص طور پر تشویشناک ہے کیونکہ جنگ کے آغاز سے اب تک 18 ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں۔
وزارت صحت کے سربراہ نے خبردار کیا کہ اگر موجودہ جنگ جاری رہی، غذائی قلت اور قابض اسرائیل کے خلاف بچوں کو دودھ کی فراہمی روکنے کے ظلم کو ختم نہ کیا گیا تو صورتحال مزید تباہ کن ہو جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ غذائی قلت کی زد میں سب سے زیادہ کمزور طبقات، خصوصاً بچے اور معمر بیمار لوگ ہیں، جو فوری خطرے میں ہیں۔
ڈاکٹر البرش نے کہا کہ اگر قابض اسرائیل نے ضروری اشیاء اور غذائی امداد کی آمد پر پابندی جاری رکھی تو غزہ قحط کی پانچویں سطح پر پہنچ جائے گا، جہاں مکمل بھوک کا راج ہوگا اور ہزاروں افراد، خاص طور پر معصوم بچے موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سب سے پہلے بچے غذائی قلت کا شکار ہوں گے، پھر بڑی عمر کے افراد بھی کمزور اور بیمار ہو کر زندگی کی بازی ہار جائیں گے۔
وزارت صحت نے پیر کو مزید پانچ افراد کی موت کی تصدیق کی جو قحط اور غذائی قلت کا شکار تھے۔ اس کے ساتھ ہی غزہ میں بھوک کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد 180 ہو گئی ہے، جن میں 93 بچے شامل ہیں۔
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال اس عزم کی کھلی نفی ہے جو فلسطینیوں نے اپنی زمین، آزادی اور زندگی کے لیے کی ہے۔ قابض اسرائیل کی سفاکی، درندگی اور نسل کشی کی بدترین شکلیں انسانی المیے کو گہرا کر رہی ہیں۔ دنیا کو اب دیر نہیں کرنی چاہیے اور فلسطینیوں کی جان بچانے کے لیے فوری اور موثر قدم اٹھانا چاہیے۔