غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ پر قابض اسرائیلی محاصرے اور صہیونی درندگی کی وجہ سے بھوک اور محرومی کے کرب میں مبتلا ایک اسرائیلی قیدی فوجی کی ویڈیو نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ القسام بریگیڈز نے ہفتے کے روز وہ لرزہ خیز مناظر جاری کیے ہیں، جن میں قابض اسرائیلی فوجی ’’آفیطار داوید‘‘ اپنی بھوک، کمزوری اور مایوسی کی روزمرہ داستان قلم بند کرتے دکھائی دیتا ہے۔
یہ دل دہلا دینے والے مناظر ایک تنگ اور تاریک سرنگ میں فلمائے گئے ہیں، جہاں آفیطار داوید ایک زمین پر بچھے چٹائی نما بستر پر بیٹھا ہے اور دیوار پر چسپاں چند کاغذوں پر اپنے کرب بھرے دنوں کا حساب لکھ رہا ہے۔ ویڈیو کے آغاز میں وہ 27 جولائی بہ روز اتوار کی تاریخ لکھتے ہوئے اپنے کرب کا بیان شروع کرتا ہے۔
اسرائیلی قیدی نے بنجمن نیتن یاھو کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے اسے اپنے اور دیگر اسرائیلی قیدیوں کو یکسر فراموش کر دینے کا ذمے دار قرار دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ نیتن یاھو کی جانب سے جنگ بندی معاہدے سے انکار دراصل ان قیدیوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ اس نے کہا کہ ’’تم بہ طور وزیراعظم میرے اور باقی قیدیوں کے ذمہ دار ہو، مگر تم نے ہمیں چھوڑ دیا‘‘ ۔ یہ قیدی کی پکار تھی، جو قابض ریاست کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ اور بے حسی کا عکاس ہے۔
ویڈیو میں آفیطار داوید کا کمزور، لاغر اور بیمار جسم، لرزتی آواز کے ساتھ کیمرے سے اس کی گفتگو، اس کی فاقہ کشی اور اضطراب کی غماز ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’مجھے نہیں معلوم میں کیا کھاؤں گا، میں کئی دنوں سے بھوکا ہوں، پینے کے لیے بھی بمشکل پانی میسر ہے، صرف تھوڑا سا دال اور لوبیا ملا ہے‘‘۔ اس کے بعد وہ کیمرے کی طرف رخ کر کے کہتا ہے: ’’مجھے دیکھو، میں کتنا کمزور ہو چکا ہوں، یہ کوئی فسانہ نہیں، یہ حقیقت ہے‘‘۔
وہ درد میں ڈوبے لہجے میں مزید کہتا ہےکہ ’’ گوشت ہے، نہ چکن، نہ مچھلی، کچھ بھی نہیں، میرا جسم ختم ہو رہا ہے‘‘۔
ویڈیو کے دوران کچھ پُرانے مناظر بھی شامل کیے گئے، جن میں دیگر قیدی کھانا کھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ مسکرا رہے ہیں، کیمرے کو شکریہ ادا کر رہے ہیں اور ان مناظر سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت صورت حال کسی حد تک مختلف تھی۔
آفیطار داوید اپنے ہاتھ سے بنائے گئے ایک جدول میں دکھاتا ہے کہ جولائی کے مہینے میں اس نے کن کن دنوں میں کچھ کھایا اور کن دنوں میں مکمل طور پر بھوکا رہا۔ کہیں صرف دال، کہیں صرف پھلیاں اور کہیں کچھ بھی نہیں۔
ایک منظر میں وہ ایک ڈبہ اٹھائے دکھائی دیتا ہے جس میں کچھ محفوظ پھل ہیں۔ وہ کہتا ہے ’’یہ دو دن کا راشن ہے، صرف زندہ رہنے کے لیے‘‘۔ اس کا بیان غزہ کے محاصرے اور قابض اسرائیل کی جانب سے مسلط کی گئی دانستہ فاقہ کشی کی پالیسی کی گہرائی کو آشکار کرتا ہے۔
پھر ویڈیو کا سب سے اندوہناک لمحہ آتا ہے جب آفیطار زمین کھودنے والی ایک چھوٹی سی کدال سے سرنگ کی مٹی کھودتا ہے۔ وہ خاموشی سے اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھود رہا ہے۔ وہ شکستہ آواز میں کہتا ہے ’’وقت ختم ہو رہا ہے، میں دن بہ دن کمزور ہوتا جا رہا ہوں، شاید میں بچ نہ سکوں‘‘ پھر وہ اپنے عوام کو مخاطب کر کے اپیل کرتا ہے: ’’تم ہی ہو جو یہ سب روک سکتے ہو، تاکہ میں گھر واپس جا سکوں، اپنے بستر پر اپنی ماں کے ساتھ سو سکوں‘‘۔
القسام بریگیڈز نے اس ویڈیو کے اختتام پر ایک فیصلہ کن پیغام تین زبانوں عربی، عبرانی اور انگریزی میں دیا کہ”وہ صرف ایک معاہدے کے تحت ہی واپس آئیں گے۔ وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے”۔ یہ اعلان اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قابض اسرائیل کا فوجی حل، قیدیوں کو زندہ واپس نہیں لا سکتا۔
یہ ویڈیو ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایک روز قبل بھی القسام نے اسی فوجی کی خاموشی میں ڈوبی ایک ویڈیو جاری کی تھی، جس میں وہ اپنے لاغر وجود کے ساتھ صامت کھڑا تھا۔ یہ ویڈیوز نہ صرف اسرائیلی ریاست کی قیدیوں کے تئیں بے حسی کو بے نقاب کرتی ہیں، بلکہ غزہ پر مسلط اس تباہ کن محاصرے اور فاقہ کشی کی بھی گواہی فراہم کرتی ہیں۔