مقبوضہ بیت المقدس ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیلی انتظامیہ کی نسل پرستانہ پالیسیاں ایک بار پھر بے نقاب ہو گئیں، جب انہوں نے بیت المقدس کے علاقے جبل المُکبر میں ایک فلسطینی شہری کو اپنے ہاتھوں سے اپنا گھر منہدم کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہ اذیت ناک اقدام قابض بلدیہ کی طرف سے بغیر اجازت تعمیر کی آڑ میں کیا گیا۔
فلسطینی شہری ادہم بسام عویسات کو باضابطہ طور پر اپنا ذاتی مکان خود گرانے پر مجبور کیا گیا۔ یہ مکان سال 2019 ءمیں تعمیر ہوا تھا، جس کی کل جگہ پچاس مربع میٹر سے بھی کم تھی اور اس میں چار افراد پر مشتمل خاندان رہائش پذیر تھا، جو اب بے گھر ہو چکا ہے۔
ادہم کے والد، بسام عویسات نے بتایا کہ چار سال قبل ان کے بیٹے نے یہ چھوٹا سا مکان بنایا تھا تاکہ خاندان کو ایک چھت میسر آ سکے، لیکن قابض اسرائیلی بلدیہ نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر اجازت تعمیرات کا بہانہ بنا کر ہدم کا نوٹس جاری کیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہم نے وکلاء کے ذریعے قانونی چارہ جوئی کی اور ہزاروں شیکل صرف کیے، لیکن بالآخر قابض بلدیہ نے ہمیں دھمکی دی کہ اگر گھر انہوں نے خود منہدم کیا تو ہمیں 70 سے 80 ہزار شیکل تک کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔
بسام عویسات نے دل گرفتہ لہجے میں کہا: ’’ہمارے پاس اس ایک چھوٹے سے پلاٹ کے سوا کچھ بھی نہیں، اب ہم اسی زمین پر خیمہ لگا کر رہیں گے، لیکن اپنی مٹی نہیں چھوڑیں گے‘‘۔
یہ واقعہ قابض اسرائیل کی اُس طویل المدت پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت بیت المقدس کے اصل باشندوں کو ان کے گھروں سے محروم کر کے شہر کو یہودی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے تمام اقدامات کا مقصد بیت المقدس کو فلسطینیوں سے خالی کرنا اور ایک نیا نسل پرست جغرافیہ ترتیب دینا ہے۔
قابض اسرائیلی حکام فلسطینیوں کو مالی جرمانوں کے خوف، ہراسانی اور ہدم کے نام پر مسلسل اپنے گھروں کو خود گرانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ عمل اس وقت مزید تیز ہو گیا ہے جب سے سنہ2023ء میں غزہ پر مسلط کی گئی جنگِ نسل کشی جاری ہے، جس کے دوران دنیا کی توجہ غزہ کے قتل عام پر مرکوز ہے اور اسی پردے میں بیت المقدس میں درندگی کا سلسلہ بڑھا دیا گیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر سنہ2023ء سے اب تک قابض اسرائیلی انتظامیہ بیت المقدس میں 623 مکانات اور تنصیبات کو مسمار کر چکی ہے۔ ان میں ایسے رہائشی مکانات بھی شامل ہیں جو عشروں سے آباد تھے، اور بعض زیرتعمیر تھے۔ علاوہ ازیں درجنوں تجارتی مراکز اور روزگار کے ذرائع بھی مٹا دیے گئے، جس سے درجنوں خاندانوں کا معاشی قتل کر دیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق، صرف جولائی میں بیت المقدس میں 68 ہدم و انہدامی کارروائیاں ہوئیں، جن میں سے اکثر کو بغیر اجازت تعمیر کا بہانہ بنا کر منہدم کیا گیا۔ مزید درجنوں نئے نوٹس بھی جاری کیے گئے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک منظم منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد بیت المقدس میں فلسطینی وجود کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔
قابض اسرائیل نے بیت المقدس کی شناخت مٹانے کے لیے کئی جارحانہ منصوبے تیزی سے نافذ کیے ہیں، جن میں سے نمایاں منصوبہ شہر کے اندر آباد قابض یہودی بستیوں کو آپس میں جوڑنے کے لیے ’’ہلکا ریل منصوبہ‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ قابض انتظامیہ نے پرانے بیت المقدس میں فلسطینی املاک کی ضبطی کا عمل شروع کر رکھا ہے اور مسجد اقصیٰ کے قرب و جوار میں صہیونی تہواروں کا انعقاد کیا جا رہا ہے تاکہ شہر کو یہودی ریاست کی جھوٹی تاریخ کا حصہ بنا کر اصل فلسطینی تشخص کو مٹا دیا جائے۔
یہ اقدامات اس بات کی کھلی دلیل ہیں کہ قابض اسرائیل صرف غزہ میں نسل کشی پر اکتفا نہیں کر رہا، بلکہ بیت المقدس کے تاریخی اور مذہبی وجود کو بھی مٹا دینے پر تلا ہوا ہے۔ فلسطینی عوام اس تمام ظلم کے باوجود اپنی سرزمین سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ ان کے صبر، استقامت اور قربانیوں کی داستاں تاریخ کے اوراق پر سنہری حروف سے لکھی جا رہی ہے۔