Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ میں ہر روز 25 بچے شدید غذائی قلت کا شکار، انسانی بحران سنگین ترین سطح پر

غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )  بین الاقوامی طبی تنظیم “ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز” نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بچوں کے درمیان شدید غذائی قلت ایک ہولناک انسانی بحران میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ بحران دراصل قابض اسرائیل کی مسلط کردہ اجتماعی بھوک، نسل کشی کی جنگ اور مکمل محاصرے کا نتیجہ ہے۔

تنظیم نے بتایا کہ حالیہ ہفتوں میں پانچ برس سے کم عمر بچوں میں شدید غذائی قلت کے کیسز تین گنا بڑھ چکے ہیں۔ تنظیم کی طبی ٹیمیں روزانہ اوسطاً 25 ایسے بچوں کا علاج کر رہی ہیں جو غذائی قلت کی انتہائی تشویشناک حالت میں ان کے مراکز پہنچتے ہیں۔

تنظیم کی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی رابطہ کار، ایناس ابو خلف نے صورتحال کو “ہر لحاظ سے تباہ کن” قرار دیتے ہوئے کہا کہ تنظیم کے زمینی مشاہدات کے مطابق حالات ہر دن مزید خراب ہو رہے ہیں۔

انہوں نے اناطولیہ نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ “ہم نے انسانی بحران کی ایسی ہولناک تصویر پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ ہم گزشتہ پچیس برس سے غزہ میں کام کر رہے ہیں، مگر ایسی تباہی، ایسا قحط، اور اتنی وسیع سطح پر بھوک پہلے کسی جنگ میں بھی دیکھنے کو نہیں ملی”۔

ابو خلف نے کہاکہ “غزہ میں بجلی ہے، نہ خوراک، نہ دوا، نہ کوئی محفوظ جگہ ہے۔ قابض اسرائیل منظم بھوک، جبری نقل مکانی اور مسلسل حملوں سے عام شہریوں کو ایک زندہ قبر میں دھکیل رہا ہے۔ یہاں تک کہ ہماری تنظیم کے عملے، مریضوں، اور نومولود بچوں کو بھی جنگی حالات کا سامنا ہے”۔

انہوں نے مزید کہاکہ “غزہ میں کوئی جگہ محفوظ یا مقدس نہیں رہی۔ یہ نسل کشی غزہ کی ہر سانس، ہر بچپن، ہر زندگی کو نشانہ بنا رہی ہے۔ شہری ایک سمٹتے ہوئے قید خانے میں محصور ہو چکے ہیں، جہاں اب صرف 13 فیصد زمین دستیاب رہ گئی ہے۔ یہ ظلم بند ہونا چاہیے”۔

ابو خلف کے مطابق قابض اسرائیل خوراک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ غزہ میں تنظیم کی کلینکس اور طبی مراکز میں حاملہ خواتین اور بچوں میں شدید غذائی قلت کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔

انہوں نے کہاکہ “تقریباً ہر چار میں سے ایک بچہ یا حاملہ خاتون غذائی قلت کا شکار ہے۔ ہم روزانہ اوسطاً 25 نئے کیسز کا سامنا کرتے ہیں اور یہ اعداد و شمار محاصرے کے جاری رہنے کے ساتھ مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں”۔

تنظیم نے اگرچہ کوئی حتمی تعداد نہیں بتائی تاہم غزہ کے الشفاء میڈیکل کمپلیکس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ نے بتایا کہ سات اکتوبر سنہ2023ء کے بعد سے اب تک غزہ میں غذائی قلت سے متاثرہ بچوں کی تعداد 20 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

اقوام متحدہ کے معاون سیکرٹری جنرل برائے انسانی امور، ٹام فلیچر نے پیر کے روز کہا کہ “غزہ میں ہر تین میں سے ایک فلسطینی کئی دن سے کچھ نہیں کھا سکا”۔ انہوں نے امداد کی فوری رسائی پر زور دیا۔

ابو خلف نے یہ بھی بتایا کہ قابض اسرائیلی بمباری نے “ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز” کو کئی طبی مراکز خالی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں سکیورٹی کی سنگین صورتحال طبی خدمات کی فراہمی کو تقریباً ناممکن بنا رہی ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہاکہ “غزہ میں اب وہ کچھ نہیں رہا جسے انسانی ہمدردی کا دائرہ کار کہا جائے۔ جنگ بندی اور محاصرہ اٹھانے کے مطالبے بہرے کانوں سے ٹکرا رہے ہیں”۔

انہوں نے کہاکہ “عالمی برادری اور دنیا کے رہنما غزہ کے بحران پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ لمحہ انسانی ہمدردی کی تاریخ میں فیصلہ کن موڑ بن چکا ہے۔ جو امداد غزہ پہنچ رہی ہے، وہ سمندر میں تنکے کے برابر ہے”۔

غذا کی خاطر موت کا سامنا

ابو خلف نے شمالی غزہ کے ہسپتالوں میں بچوں کے لیے دودھ، انکیوبیٹرز اور دیگر اہم طبی آلات کی شدید قلت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ وہاں نومولود بچوں کے نگہداشت یونٹس مشکلات کا شکار ہیں۔

انہوں نے “فاؤنڈیشن فار ہیومنٹیرین ایڈ فار غزہ” کے نام سے کام کرنے والے ادارے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جو قابض اسرائیل اور امریکہ کی سرپرستی میں کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ادارہ “روزانہ ہونے والے قتل عام پر پردہ ڈالنے کا ایک ذریعہ ہے”۔

انہوں نے کہاکہ “غزہ کے لوگ صرف خوراک کے لیے اپنی جانیں داؤ پر لگا رہے ہیں، جبکہ ہسپتال زندگی بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں”۔

ابو خلف نے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی، محاصرہ کے خاتمے اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی مکمل پاسداری کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیموں کی نگرانی سے ہٹ کر، قابض اسرائیلی حکام نے 27 مئی سے “فاؤنڈیشن فار ہیومنٹیرین ایڈ فار غزہ” کے ذریعے امداد کی تقسیم کا ایک متنازعہ منصوبہ شروع کیا ہے، جسے اقوام متحدہ نے تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔

قابض اسرائیلی فوج روزانہ کی بنیاد پر ان فلسطینیوں پر فائرنگ کر رہی ہے جو امدادی مراکز کے قریب اپنی بقا کی آخری امید لیے قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ حکومتی میڈیا آفس کے مطابق ان مقامات پر اب تک 1 ہزار 320 فلسطینی شہید اور 8 ہزار 818 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

مارچ کے آغاز میں قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ کے تمام راستے بند کرنے اور خوراک و ادویات کی امداد روکنے کے بعد یہ بحران مزید گہرا ہو چکا ہے۔ یہ غزہ کی تاریخ کی بدترین انسانی تباہی ہے، جہاں قحط اور نسل کشی بیک وقت جاری ہیں۔

منظر عام پر آنے والی تصاویر اور ویڈیوز میں غزہ کے شہریوں کو بھوک سے بے حال، ہڈیوں کا ڈھانچہ، نیم بے ہوش اور زمین پر گرے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

قابض اسرائیل کی مسلط کردہ اس نسل کشی کی جنگ نے اب تک 2 لاکھ 7 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید یا زخمی کیا ہے، جن میں اکثریت بچے اور خواتین ہیں، جب کہ 10 ہزار سے زائد افراد لاپتا ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور فاقہ کشی کے باعث سینکڑوں افراد، خصوصاً بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan