Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

’بوتلوں میں چھپے دل، غذائی دانوں کے ساتھ پیغامِ شرمندگی غزہ کی سمت روانہ!

غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )  بحرِ روم کے کنارے رفح، مصر کے ساحل پر ایک چھوٹے سے خیمہ نما منظر میں ایک اہلِ خانہ ہاتھوں میں خالی بوتلیں اور دلوں میں بےقراریاں لیے بیٹھے ہیں۔ ننھی “جنات عبدون” کسی بڑی لڑائی کے سپاہی کی طرح سنجیدہ نظر آتی ہے، وہ ایک ایک پیغام احتیاط سے کاغذ پر لکھتی ہے۔
“اہلِ سینا کے بچوں سے اہلِ غزہ کے بچوں تک… شاید، کبھی، کہیں پہنچ جائے”۔

یہ وہ معصوم الفاظ ہیں جو وہ ہر بوتل میں خشک غذائی اجناس جیسے چاول اور دال کے ساتھ رکھتی ہے۔ یہ قواریر پھر اس کا چھوٹا بھائی “بلال عبدون” اٹھاتا ہے اور سمندر کے حوالے کر دیتا ہے۔

یہ ایک نادر منظر ہےجو مظلوم فلسطینیوں کے زخموں پر عوامی درد مندی کا نمونہ ہے۔ قابض اسرائیل کی طرف سے جاری قتل عام، محاصرہ، نسل کشی، بھوک، بربادی اور اجتماعی سزاؤں کے باوجود بین الاقوامی برادری کی خاموشی اور عرب، اسلامی حکومتوں کی مجرمانہ غفلت کے درمیان بھی عام لوگ بول رہے ہیں، رو رہے ہیں اور جو کچھ بھی کر سکتے ہیں کر رہے ہیں۔

یہ وہ پکار ہے جو الفاظ کی زبان سے باہر نکلی ہے، کیونکہ اگر حکمران چپ ہیں، تو عوام کے پاس اب صرف سمندر ہے۔ وہی پیغام رساں جسے انہوں نے امیدوں کا پیامبر بنایا ہے۔

تجربے کی کہانی

یہ انسانیت سے بھرپور خیال ایک مصری ماہر تعلیم اور انجینئر “محمد علی حسن” کا ہے، جسے انہوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا، جہاں اس نے بہت جلد عوامی توجہ حاصل کرلی۔ لوگ خود سے بوتلیں بھرنے لگے اور یہ عمل ایک عملی تعاون کی بجائے احساسِ یکجہتی کا مظہر بن گیا۔

طریقہ کار سادہ ہے مگر دل چیر دینے والا۔ خالی بوتلوں میں ایک یا دو کلو خشک اجناس بھری جاتی ہیں، پھر انہیں اچھی طرح بند کر کے مصر، لیبیا، تیونس، الجزائر اور مراکش کے ساحلوں سے سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے، اس امید کے ساتھ کہ بحر روم کی لہریں 72 سے 96 گھنٹوں میں ان بوتلوں کو غزہ کے ساحل تک لے آئیں گی۔

سوشل میڈیا پر عوامی ردِ عمل

یہ منفرد قدم جیسے ہی وائرل ہوا، عوامی ردعمل کی لہر دوڑ گئی۔ معروف سماجی کارکن انس الحفناوی نے لکھا کہ”آپ پانیوں پر امید بوتے ہیں۔ یہ صرف خوراک کی نہیں، زندگی کی تحریک ہے”۔

ایک اور صارف نے تجویز دی کہ اگر ان قواریر کو پلاسٹک کے بند نلکوں میں بند کر کے کسی گیس سے بھرا جائے، تو انہیں تیز تر اور محفوظ طریقے سے غزہ پہنچایا جا سکتا ہے، یہاں تک کہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے ان کی رہنمائی بھی کی جا سکتی ہے۔

شکوک و شبہات بھی موجود

کچھ افراد نے البتہ اس اقدام کی مؤثریت پر سوال اٹھائے۔ عادل تامر نے کہا کہ”قابض اسرائیل نے تیراکی اور ماہی گیری پر پابندی لگا رکھی ہے، ایسے میں یہ سب ممکن نظر نہیں آتا”۔

احمد اسامہ نے تجویز دی کہ ان بوتلوں میں جی پی ایس ڈیوائس لگائی جائے تاکہ پتہ چل سکے کہ وہ واقعی غزہ تک پہنچتی ہیں یا نہیں۔

معاف کرنا

ایسے ہی ایک مصری نوجوان نے بوتلیں پھینکتے وقت دل سے نکلتی آواز میں اہلِ غزہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
“سامحونا… سامحونا۔” ہمیں معاف کرنا ہمیں معاف کرنا۔
پھر اس نے دعا کی
“یا اللہ، جس طرح تُو نے نوح علیہ السلام کی کشتی کو سمندر کے طوفانوں میں بچایا، ہماری قواریر کو بھی اہلِ غزہ تک پہنچا دے۔ ہمارے پاس کچھ نہیں، بس یہی ہے جو کر سکتے ہیں”۔

اس نے عوام کو پکارا ۔”شاید قیامت کے دن یہی بوتل تمہاری نجات کا سبب بن جائے”۔

دلوں میں اترتے پیغامات

جنات عبدون کی لکھی تحریریں اور اس نوجوان کی رقت آمیز دعائیں اہلِ غزہ تک شاید خوراک کی صورت میں نہ پہنچیں، مگر ان کے دلوں کو چھو گئیں۔ ایک غزہ کے بچے نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ”اے اہلِ مصر! شاید تمہارا کھانا ہم تک نہ پہنچا ہو، مگر تمہاری محبت پہنچ گئی۔ تمہارے دلوں کی گرمی ہم نے محسوس کی”۔

وہ مزید کہتا ہےکہ”ہو سکتا ہے سمندر خوراک نہ لایا ہو، مگر لایا یہ پیغام کہ تم آج بھی ہمارے ساتھ ہو، محبت کرتے ہو، بغیر کسی بدلے کے… شکریہ اے اہلِ مصر، کاش سب ایسے ہی ہوتے”۔

ترکیہ کے عوام بھی شریک

یہ پکار صرف مصر میں نہ رہی بلکہ ترکیہ کے شہر مرسین میں بھی شہری اسی طرح کی بوتلیں سمندر کے حوالے کرتے دکھائی دیے، جن میں اہلِ غزہ کے لیے محبت اور ہمدردی کے جذبات بند تھے۔

پوری دنیا میں غم و غصہ

یہ تمام مظاہر ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہے ہیں جب دنیا بھر کے عوام غزہ میں جاری قتلِ عام، نسل کشی، محاصرہ اور قحط کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کے مکمل تعاون سے قابض اسرائیل ایک پورے خطے کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تُلا ہے۔

وزارت صحت فلسطین نے بتایا ہے کہ قابض اسرائیل کی اس نسل کشی میں اب تک 60 ہزار سے زائد شہادتیں ہو چکی ہیں، 1 لاکھ 45 ہزار سے زائد فلسطینی شدید زخمی ہیں، 11 ہزار سے زائد افراد لاپتا ہیں، اور سینکڑوں لوگ قحط سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ دو ملین سے زائد فلسطینی بے گھر، کھلے آسمان تلے، کھنڈرات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan