غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) جب امید کی کرن دکھائی دینے لگی، جب جنگ کی دلدل سے نکلنے کی راہیں کھلنے لگیں، عین اسی لمحے واشنگٹن نے وہی پرانا، خونی چہرہ دکھایا اور فلسطینیوں کی امن کی کوششوں کو جوتوں تلے روندتے ہوئے غزہ کے نہتے عوام اور مزاحمتی قیادت کے خلاف ایک نئی خونریز مہم کا اعلان کر دیا۔
مصر اور قطر کی ثالثی اور امریکہ کی سرپرستی میں ہونے والی حالیہ مذاکراتی پیش رفت کو اس وقت شدید دھچکا لگا، جب مشرقِ وسطیٰ ایلچی کے لیے اسٹیو وٹکوف، نے حماس کے مؤقف کو “خود غرض” قرار دے کر دھمکی دی کہ قیدیوں کی بازیابی اب دیگر راستوں سے کی جائے گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے اعلان کیا کہ امریکہ نہ صرف مذاکرات سے دستبردار ہو رہا ہے بلکہ اب “حماس کو صفحۂ ہستی سے مٹانے” کے لیے میدانِ جنگ کی راہ اختیار کی جائے گی۔
امن کی پیشکش، مگر جواب میں دھمکیاں
چند روز قبل تحریک حماس نے مصر و قطر کو غزہ میں جنگ بندی کے مجوزہ معاہدے پر اپنا تفصیلی، مثبت اور لچکدار جواب پیش کیا۔ اس مؤقف کو عرب ثالثوں نے سراہا اور اسے فریقین کو قریب لانے کی کوشش قرار دیا۔ وائٹ ہاؤس نے بھی محض ایک روز پہلے کہا تھا کہ امریکہ فوری جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کا خواہاں ہے۔
دوحہ میں موجود اسرائیلی مذاکراتی ٹیم کو بھی، اسرائیلی ذرائع کے مطابق، ثالثوں کے ساتھ جنگ کے خاتمے پر بات چیت کی مکمل اجازت دے دی گئی تھی۔ بلکہ خود بنجمن نیتن یاھو، جن پر جنگی جرائم کے سنگین الزامات ہیں، اپنے قریبی وزرا سے یہ عندیہ دے چکے تھے کہ وہ جنگ بندی کے تحت اس خونریز جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
قابض اسرائیلی فوج کی عسکری ناکامی، اور غزہ میں مزاحمت کے ہاتھوں بھاری نقصانات، اس خواہش کی اصل وجہ بتائے جاتے ہیں۔
انتہا پسندی کی واپسی اور امریکی چہرے کا نقاب اتر گیا
تاہم قابض اسرائیل کی انتہا پسند قوتیں، بالخصوص وزیر خزانہ بزلئیل سموٹرچ اور داخلی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر نے مذاکرات کی راہ روکنے کی کھلی کوشش کی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ غزہ کو بھوکا مارنے، اس کا مکمل محاصرہ جاری رکھنے اور مکمل طور پر اس پر قبضہ کرنے کی مہم کو ترک نہ کیا جائے۔
امریکہ جس نے ثالث کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، نے فوری طور پر ان صہیونی مطالبات کو اپناتے ہوئے حماس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ ان دھمکیوں میں قیادت کے قتل، غزہ میں مزید قتل عام، اور عام شہریوں کو فاقہ کشی میں دھکیلنے جیسے بھیانک عزائم واضح تھے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کا یہ اقدام صرف دباؤ کی حکمت عملی نہیں بلکہ ایک نیا جنگی باب کھولنے کی تیاری ہے۔
حماس نے ان دھمکیوں کو حیران کن اور منفی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ اس نے ایک بار پھر ذمہ داری، سنجیدگی اور وسیع مشاورت کے بعد امن کی راہ کو ترجیح دی ہے۔
سیاسی منافقت یا وقتی چال؟
تجزیہ کار ایہاب جبارین کا کہنا ہے کہ قابض اسرائیل کی انتہا پسند آوازیں نیتن یاھو کے اصل ارادوں کو چھپانے کی چال ہو سکتی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی وفد کا قطر سے انخلا دراصل وقت حاصل کرنے اور سیاسی فیصلے کو مؤخر کرنے کی ایک کوشش ہے۔
نیتن یاھو، جو اب تک کوئی فیصلہ کن عسکری کامیابی حاصل نہیں کر سکے، سیاسی فیصلہ لینے سے بھی کتراتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اندرونی عوامی دباؤ، مظاہروں اور سیاسی محاسبے سے بچنے کے لیے وقت کا کھیل کھیل رہے ہیں۔
قابض اسرائیل کے اندر یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کے اہل خانہ مسلسل مظاہروں کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ان کے عزیزوں کو کسی قیمت پر واپس لایا جائے۔
جبارین کے مطابق، حکومت پر دباؤ کی پانچ سطحیں ہیں: اخلاقی، انسانی، سکیورٹی، سیاسی، اور عالمی سطح پر قابض اسرائیل کی شبیہ کا خوف۔
ٹرمپ اور نیتن یاھو کی حکومت اس وقت حماس کو مذاکرات کی ناکامی کا مجرم ٹھہرا کر بین الاقوامی سطح پر نئی جارحیت کے لیے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔
ادھر سی این این کے مطابق، اسرائیلی حکام نے بھی اعتراف کیا ہے کہ وفد کی واپسی مذاکرات کے خاتمے کی علامت نہیں، بلکہ مزید مشاورت کے لیے کی گئی ہے۔ ان کے بقول، حماس کا مؤقف “مثبت” ہے اور اس سے معاملات میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔
جنگی جنون کی سازش
فلسطینی محقق، سعید زیاد، کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے بیانات نہ صرف سیاسی دباؤ ہیں بلکہ صاف اعلان ہیں کہ واشنگٹن غزہ میں ایک نئی، خونی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ اب قیادت کے قتل اور غزہ میں زمینی کارروائی جیسے اقدامات کے ذریعے حماس کے مؤقف کو توڑنے اور مذاکراتی میز پر اسے تنہا کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
انہوں نے ماضی کے واقعات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اسماعیل ہنیہ جیسے قائدین پر مذاکرات کے دوران حملے اسی پالیسی کا حصہ تھے۔
زیاد نے خبردار کیا کہ آنے والے دنوں میں میڈیا، سفارتکاری اور عسکری محاذ پر ایسا دباؤ ڈالا جا سکتا ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اگر قابض اسرائیل نے دوبارہ زمینی کارروائی کی کوشش کی تو اس بار مزاحمت پہلے سے زیادہ تیار اور پرعزم ہے، اور قابض افواج کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حماس: امن کی راہ میں سبقت
تحریک ’حماس‘ نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ اس نے انتہائی سنجیدگی، لچک اور قومی ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ بندی کے فارمولے کو قبول کرنے کا عندیہ دیا۔ حماس نے ثالثی کرنے والے ممالک، بالخصوص قطر اور مصر کے مثبت رویے کا خیر مقدم کیا، اور امریکی مؤقف پر سخت مایوسی کا اظہار کیا۔
مصری اور قطری حکومتوں نے تاحال امریکی دھمکیوں یا وفد کے انخلا پر باضابطہ ردعمل نہیں دیا، تاہم معتبر سفارتی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ اسرائیلی وفد کی واپسی مذاکرات کی بندش نہیں بلکہ وقتی تعطل ہے۔ گویا دروازہ ابھی پوری طرح بند نہیں ہوا، لیکن اس پر اندھیرا ضرور چھا چکا ہے۔