مقبوضہ بیت المقدس –(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ میں موجود قابض اسرائیل کے قیدیوں کے اہل خانہ نے ایک بار پھر بنجمن نیتن یاھو کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر ایک جامع معاہدہ کرے تاکہ ان کے پیاروں کی واپسی ممکن ہو سکے۔ ان اہل خانہ نے صہیونی حکومت پر سخت الزام عائد کیا ہے کہ وہ ان کے دکھ درد کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
ہفتے کے روز جاری کردہ ایک پریس بیان میں قیدیوں کے اہل خانہ نے کہا کہ ”ہم سے کہا گیا تھا کہ عسکری دباؤ کے ذریعے ہمارے پیارے واپس آ جائیں گے، مگر حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ یہ پالیسی کئی قیدیوں کی موت کا سبب بنی ہے۔“
انہوں نے مزید کہا کہ ”وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے، اور ہمارے بیٹے حقیقی خطرے میں ہیں۔“
اہل خانہ نے جنگ کے تسلسل پر شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم اس نہ ختم ہونے والی جنگ سے تنگ آ چکے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارے قیدی فوراً واپس لائے جائیں اور اس اذیت کو فوری طور پر روکا جائے۔“
ان قیدیوں کے اہل خانہ نے امریکی حکومت سے براہِ راست اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم امریکہ سے کہتے ہیں کہ ہمارے بیٹے موت کے دہانے پر ہیں، جبکہ بنجمن نیتن یاھو محض وقت ضائع کر رہا ہے۔“
انہوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ مداخلت کریں اور قابض اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالیں تاکہ جنگ ختم ہو اور قیدیوں کی واپسی کا راستہ ہموار ہو سکے۔
اسی معاملے پر اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے ان کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کے اس بیان کو مسترد کر دیا ہے، جس میں الزام لگایا گیا کہ حماس نے غزہ میں جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
حماس کے رہنما عزت الرشق نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ امریکی الزامات ان تمام سفارتی کوششوں اور ثالثی کے عمل کی حقیقت کے منافی ہیں، جس میں قطر اور مصر سمیت تمام ثالثوں نے حماس کے مؤقف کو سنجیدہ، مثبت اور تعمیری قرار دیا ہے۔
الرشق نے زور دے کر کہا کہ امریکہ کی یہ یک طرفہ بیانات اصل رکاوٹ کو نظر انداز کر رہے ہیں، اور وہ رکاوٹ کوئی اور نہیں بلکہ بنجمن نیتن یاھو کی حکومت ہے، جو مسلسل معاہدوں میں رخنہ ڈالتی ہے، چالاکی سے معاملات کو ٹالتی ہے اور اپنی ذمہ داریوں سے بھاگتی ہے۔
انہوں نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ قابض اسرائیل کو سیاسی اور عسکری تحفظ فراہم کرنے کے بجائے حقیقت کا سامنا کرے، اور اس نسل کش جنگ کو روکے جس میں دو ملین سے زائد فلسطینی غزہ میں موت، بھوک، تباہی اور جبری ہجرت کا سامنا کر رہے ہیں۔