غزہ – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے رہنما اور مذاکراتی ٹیم کے رکن غازی حمد نے واضح کیا ہے کہ جماعت نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے ہونے والی بات چیت میں غیر معمولی سنجیدگی اور مکمل ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور ایک ایسی حقیقت پسندانہ اور معروضی تجاویز پر مبنی حکمت عملی پیش کی جسے تمام ثالثوں نے سراہا۔ مگر امریکہ کا رویہ حیرت انگیز حد تک مبہم اور غیر واضح رہا اور اس کی جانب سے کوئی بامعنی وضاحت سامنے نہیں آئی۔
قابض اسرائیل کی چالاکیاں ناکام بنائیں
العربی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں غازی حمد نے کہا کہ قابض اسرائیل مذاکرات کی میز پر وہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو میدان جنگ میں شکست کھا کر بھی حاصل نہ کر سکا۔ حماس نے کامیابی کے ساتھ ان منصوبوں کو ناکام بنایا جن کے ذریعے قابض اسرائیل غزہ سے انخلاء کے غیرمنصفانہ خاکے تھوپنا چاہتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ”ہمارے سامنے دو ہی راستے تھے: یا تو ایک جلد بازی میں کیا گیا کمزور معاہدہ جو قابض اسرائیل کو مکمل کنٹرول دے دیتا، یا ایک ایسا معاہدہ جو ہمارے عوام کے کم از کم حقوق کا تحفظ کرے۔ ہم نے وہ راستہ چنا جو ہمارے عوام کے مفاد میں تھا، نہ کہ دوسروں کے سیاسی مفادات کے لیے”۔
حماس پر الزامات بے بنیاد، حائل رکاوٹ خود قابض اسرائیل
حمد نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ حماس کبھی بھی کسی معاہدے کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنی۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی مذاکرات میں کوئی پیش رفت ہوتی، قابض اسرائیل کی جانب سے دانستہ ٹال مٹول اور عسکری جارحیت کی نئی لہر اس پیش رفت کو تباہ کر دیتی، جس سے کئی بار معاہدے کے قریب پہنچ کر بھی بات بگڑ گئی۔
شرائط بہتر بنائیں، قیدیوں کا معاملہ مرکزی
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ حماس نے ان متعدد ظالمانہ شرائط کو بہتر بنانے میں کامیابی حاصل کی جنہیں قابض اسرائیل مسلط کرنا چاہتا تھا۔
“ہماری اولین ترجیح اپنے عوام کو جاری جنگ سے بچانا ہے اور فلسطینی قیدیوں کے مسئلے میں نمایاں کامیابی حاصل کرنا بھی ہمارے اہداف میں شامل ہے”۔
معاہدے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے
حمد نے زور دے کر کہا کہ “حماس نے واضح، شفاف اور منطقی مؤقف اپنایا، اور ثالثی کا کردار ادا کرنے والے تمام فریقین جانتے ہیں کہ ہم نے ایک ایسی تجویز پیش کی ہے جو کسی حقیقی معاہدے کی بنیاد بن سکتی ہے”۔
میدان کی جنگ جتنی سخت، مذاکرات کی جنگ بھی سنگین
انہوں نے نشاندہی کی کہ مذاکرات کی اس جنگ میں بھی وہی شدت ہے جو میدان جنگ میں ہوتی ہے۔
“یہ عمل خطرات سے بھرا ہوا ہے اور اس میں کوئی غلطی یا انحراف ناقابل قبول ہے۔ حماس نے اس مرحلے میں بھی پورے عزم اور سختی کے ساتھ حصہ لیا تاکہ فلسطینی عوام کے مفادات کا دفاع کیا جا سکے اور قابض اسرائیل کو ناقابل قبول حقائق مسلط کرنے سے روکا جا سکے”۔
انسانی امداد پر بھی قبضے کی کوششیں ناکام
غازی حمد نے یہ بھی بتایا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے انسانی امداد کی ترسیل پر سخت پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی گئی، مگر حماس نے واضح مؤقف اختیار کیا کہ 19 جنوری سنہ2025ء کے معاہدے پر مکمل عمل کیا جائے، جس کے تحت امدادی سامان غزہ کے تمام شہریوں تک مناسب مقدار میں پہنچایا جائے گا اور اس کی نگرانی اقوام متحدہ، ہلال احمر اور وہ بین الاقوامی ادارے کریں گے جو دو مارچ سے پہلے تک وہاں متحرک تھے۔
بات چیت جاری، مقصد معقول معاہدہ ہے
انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ثالثوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے اور تمام فریقین سنجیدگی سے مذاکرات کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں۔
“کوئی بھی مذاکرات کی ناکامی نہیں چاہتا، اور ہم نے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے ایک ایسا معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جو اہل غزہ کی امیدوں پر پورا اترے۔ ہم کئی اہم نکات پر پیش رفت کر چکے ہیں”۔
تمام فلسطینی دھڑوں سے مشاورت، یکجہتی کی فضا
حمد نے بتایا کہ حماس نے دیگر تمام فلسطینی جماعتوں کے ساتھ مستقل رابطہ اور مشاورت جاری رکھی تاکہ ایک متفقہ قومی مؤقف اپنایا جا سکے جو اہل غزہ کے حقوق کا تحفظ کرے۔
“ہم غزہ کے عوام کے دکھ، درد اور تباہی کو پوری طرح محسوس کرتے ہیں اور ہماری پوری کوشش ہے کہ ایک ایسا معاہدہ ہو جس کے تحت قابض اسرائیل غزہ سے مکمل انخلاء کرے، کم از کم 60 دن کی جنگ بندی ہو اور اس دوران جنگ کا خاتمہ ممکن ہو سکے”۔
قابض اسرائیل کا اصل منصوبہ: غزہ کو نقشے سے مٹانا
اپنے انٹرویو کے اختتام پر غازی حمد نے خبردار کیا کہ قابض اسرائیل کا منصوبہ واضح ہے: “وہ غزہ کو سیاسی نقشے سے مٹانا چاہتا ہے، اور تمام فلسطینی گروہوں کو توڑ کر ختم کرنا چاہتا ہے”۔
انہوں نے واضح الفاظ میں کہا ک “ہم کسی بھی فلسطینی فریق کو سیاسی منظرنامے سے نکالنے کی اجازت نہیں دیں گے، اور میدان جنگ ہو یا مذاکرات کی میز، ہم ہر محاذ پر لڑتے رہیں گے تاکہ اس ہولناک جنگ کا خاتمہ ہو اور ہمارے عوام کو باعزت زندگی نصیب ہو سکے”۔
امریکی الزامات اور فلسطینی مؤقف کا دفاع
گذشتہ جمعہ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس پر دوحہ مذاکرات کو ناکام بنانے کا الزام عائد کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ “حماس کسی معاہدے کی خواہاں نہیں، اسے تباہ کیا جانا چاہیے اور قابض اسرائیل کو اس کے خلاف مکمل اختیارات حاصل ہیں”۔
یہ بیانات امریکی مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کی اُن دھمکی آمیز باتوں کے بعد آئے جن میں انہوں نے حماس پر مذاکرات میں دھوکہ دہی کا الزام لگا کر امریکی وفد کو دوحہ سے واپس بلا لیا۔
یہ مؤقف بظاہر قابض اسرائیلی حکومت کے ساتھ طے شدہ لگتا ہے، کیونکہ یہ بیانات اس وقت سامنے آئے جب بنجمن نیتن یاھو نے اپنے وفد کو “مشاورت” کے نام پر دوحہ سے واپس بلایا، مگر کسی رکاوٹ کا ذکر نہیں کیا۔
حماس نے ان امریکی بیانات کو گمراہ کن قرار دیا، اور اپنے سیاسی دفتر کے متعدد اراکین کے ذریعے واضح کیا کہ امریکہ کا رویہ مصر اور قطر جیسے ثالثوں کے مؤقف سے بالکل مختلف ہے، اور یہ اس مذاکراتی عمل کے حقیقی ماحول کی عکاسی نہیں کرتا جس میں مثبت پیش رفت ہو رہی تھی۔
7 اکتوبر سے جاری نسل کشی اور انسانی المیہ
یاد رہے کہ قابض اسرائیل نے 7 اکتوبر سنہ2023ء سے اب تک غزہ میں جو نسل کش جنگ مسلط کر رکھی ہے، اس میں اب تک 2 لاکھ 4 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔جبکہ 9 ہزار سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں، اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔