پیرس – (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) وہ ایک نام ہے جارج عبداللہ، جو شاید دنیا کی عدالتوں میں گم ہو چکا تھا، لیکن مظلوموں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔ ایک ایسا چراغ جو چالیس برس تک اندھیری کوٹھڑی میں جلتا رہا، مگر بجھا نہیں۔ جس نے اپنی جوانی، اپنے خواب، اپنی زندگی کا ہر لمحہ فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم بننے کے لیے قربان کر دیا۔ آج جب فرانسیسی عدالت نے فیصلہ سنایا کہ جارج ابراہیم عبداللہ 25 جولائی کو آزاد ہوگا، تو گویا صبر نے آنکھوں میں آنسو بن کر شکر کا سجدہ ادا کیا۔
41 برس… ایک لمحہ بھی کم نہ ہوا
سنہ 1984ء میں فرانس نے اسے قید کیا۔ سنہ 1987ء میں عمر قید کی سزا دے دی۔ اور جب وہ سنہ 1999ء میں رہائی کا حق دار بن چکا تھا، تب بھی اسے آزاد نہ کیا گیا۔ وجہ؟ صرف یہ کہ اس نے فلسطین کے لیے آواز اٹھائی تھی۔ اس نے قابض اسرائیل کے مظالم پر خاموش رہنے سے انکار کیا تھا۔ اس نے ظالموں کو للکارا تھا۔ امریکہ اور اسرائیلی جرائم کے خلاف اس کی زندگی ایک خاموش مگر پُرعزم احتجاج تھی۔
“میں مجرم نہیں… میں مزاحمت کار ہوں”
عدالت کے روبرو وہ بارہا کہتا رہا: “میں مجرم نہیں، میں مناضل ہوں۔ میں نے وہی کیا جو ہر باضمیر انسان کو کرنا چاہیے۔” اس کی آنکھوں میں شرمندگی نہیں، فخر کی چمک تھی۔ فلسطینی بچوں کی لاشیں، تباہ شدہ ہسپتال، اور بمباری میں جلتے خیمے، سب اس کے ضمیر کا حصہ تھے۔ وہ اپنے اختیار کردہ راستے پر نادم نہیں، بلکہ مطمئن ہے۔ وہ لڑا تھا انسانیت کے لیے، ان بچوں کے لیے جن کی زندگی قابض اسرائیلی گولیوں سے چھین لی جاتی ہے۔
لبنانی سرزمین سے فلسطینی محبت تک
1951ء میں لبنان کے ایک چھوٹے سے گاؤں “القبیات” میں پیدا ہونے والا جارج عبداللہ ابتدا میں ایک سکول ٹیچر تھا۔ مگر اس کے دل کی دھڑکنیں جلد ہی فلسطینی مہاجرین کے دکھ سے ہم آہنگ ہو گئیں۔ وہ نہر البارد کی گلیوں میں گھومتا، بچوں میں ادبی رسائل بانٹتا اور خود کو “محنت کش” کہتا، “بےشرف اشرافیہ” سے الگ۔
پھر وہ لمحہ آیا جب اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا اور وہ زخمی ہوا۔ مگر یہ زخم اس کے لیے ایک نئی زندگی کا آغاز تھا۔ اس نے بندوق تھامی اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر فلسطینی مزاحمت کی صفوں میں شامل ہو گیا۔
فرانس کی جیل، مزاحمت کا قلعہ بن گئی
جب وہ 24 اکتوبر 1984ء کو لیون کے ایک پولیس اسٹیشن میں پناہ لینے گیا، تو موساد اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ فرانسیسی حکام نے اسے گرفتار کر لیا۔ اس پر الزامات لگائے گئے: امریکی سفارتی اہلکاروں پر حملے، ہتھیار رکھنے اور “سازش” کرنے کے۔ مگر وہ جھکا، نہ بکا۔ عدالت میں جب اسے طیش میں آ کر باہر نکالا گیا، تو بھی اس نے کہا: “تم سب ظلم کے نمائندے ہو”۔
فرانس نے 1987ء میں اسے عمر قید سنا دی، حالانکہ خود سرکاری وکیل نے محض 10 سال کی سزا کی سفارش کی تھی۔ مگر جارج کو فلسطینیوں سے محبت کی سزا ملی تھی، اور یہ سزا مختصر کہاں ہوتی ہے؟
قابض اسرائیل، امریکہ اور فرانسیسی غلامی
1999ء سے اب تک اس کی رہائی کی تمام درخواستیں مسترد کی جاتی رہیں۔ ایک بار رہائی کی منظوری بھی مشروط کی گئی کہ اسے لبنان بھیجا جائے، مگر امریکہ اور قابض اسرائیل کی مداخلت نے یہ بھی ممکن نہ ہونے دیا۔ فرانس نے ظالموں کے آگے سر جھکا دیا، اور مظلوم کی صدائے حق کو دبائے رکھا۔
“غزہ کبھی ہتھیار نہیں ڈالے گا”
2024ء میں مارسیلیہ کی ایک ریلی میں اس کا پیغام سنایا گیا: “غزہ کبھی سرنگوں نہیں ہوگا، قابض صہیونیت اور مجرم قوتیں کبھی فلسطینی مزاحمت کو ختم نہیں کر سکتیں۔” یہ وہ صدا تھی جو اندھیری کوٹھڑی سے نکلی، مگر دلوں کے اندھیرے چیر گئی۔
اس نے کہا: “ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ فلسطینی مزاحمت کی جڑیں ان مہاجر کیمپوں میں ہیں جہاں بچے مٹی میں کھیلتے ہوئے آزادی کے خواب دیکھتے ہیں۔ وہی خواب میری آنکھوں میں بھی زندہ ہیں۔”
قربانی، وفاداری اور جدوجہد کا استعارہ
جارج عبداللہ نے چالیس برس کی قید کو ایک بیڑی نہیں، ایک پیغام بنایا۔ وہ پیغام: “میں فلسطین سے پیچھے نہیں ہٹوں گا، چاہے میری سانسوں کا سودا ہی کیوں نہ ہو۔” اس کی کوٹھڑی میں ایک تصویر ہے، جس پر لکھا ہے: “قریب ہے ملاقات، اے فلسطین”۔
وہ کہتا ہے: “میری رہائی کوئی بڑی بات نہیں، جب غزہ میں بچے مر رہے ہوں، جب قابض اسرائیل نسل کشی کر رہا ہو، تو میری آزادی محض ایک تفصیل ہے”۔
آج دنیا کو سوچنے کی ضرورت ہے
جارج عبداللہ رہا ہو رہا ہے، مگر وہ سوال زندہ ہے: ہم نے کب تک ظالم کے آگے جھکنا ہے؟ کب تک فلسطین کے بچوں کی لاشیں بےصدا رہیں گی؟ جارج کا پیغام یہی ہے کہ اگر ایک انسان چالیس برس قید رہ کر بھی مزاحمت پر قائم رہ سکتا ہے، تو ہم کیوں خاموش رہیں؟