برسلز –(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) یورپی یونین کے سابق اعلیٰ نمائندے برائے خارجہ امور و سلامتی پالیسی، جوزیپ بورَیل نے غزہ میں قابض اسرائیل کی وحشیانہ نسل کشی پر یورپی وزرائے خارجہ کی خاموشی اور مجرمانہ غفلت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپی اتحاد کی یہ خاموشی دراصل نسل کشی کے تسلسل کو اجازت دینے کے مترادف ہے۔
بدھ کے روز سوشل میڈیا پر جاری ایک پوسٹ میں جوزیپ بورَیل نے برسلز میں یورپی وزرائے خارجہ کے حالیہ اجلاس کی ناکامی پر شدید ردعمل دیا۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس میں کوئی ایسا عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا جو قابض اسرائیل کو انسانی حقوق کی پامالیوں پر جواب دہ ٹھہرا سکے۔ یہی مجرمانہ خاموشی غزہ کے نہتے فلسطینیوں کے خلاف جاری بربریت کو تقویت دے رہی ہے۔
بورَیل نے واضح کیا کہ یورپی اتحاد قابض اسرائیل کو انسانیت سوز جرائم اور جنگی مظالم پر سزا دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ ان کے الفاظ میں:
“یورپ نے گویا فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اس کے جنگی جرائم پر سزا نہیں دے گا، اور یوں غزہ میں نسل کشی کو بے رحمی سے جاری رکھنے کی اجازت دی جائے گی۔”
یاد رہے کہ یورپی یونین نے سنہ 2023ء کے بعد اسرائیل کے ساتھ موجودہ شراکتی معاہدے کا ازسرِنو جائزہ لیا تھا، جس میں اسرائیل کو فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب قرار دیا گیا۔ اس کے باوجود، یورپی وزراء نے کسی قسم کی پابندی عائد کرنے سے گریز کیا اور اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے دی۔
اجلاس کے بعد یورپی یونین کی موجودہ اعلیٰ نمائندہ برائے خارجہ امور، کایا کالاس نے صرف یہ کہا کہ یورپ اسرائیل کے اقدامات کا قریب سے جائزہ لیتا رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں بعض ممکنہ اقدامات پر گفتگو ہوئی، لیکن مقصد اسرائیل کو سزا دینا نہیں بلکہ غزہ میں انسانی صورت حال کو بہتر بنانا ہے۔
یہ بیان نہ صرف منافقت پر مبنی تھا، بلکہ غزہ میں مظلوم فلسطینی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ایسے وقت میں جب غزہ میں انسانی جانیں مٹی میں رُل رہی ہیں، اس قسم کے مبہم بیانات نسل کشی کی بالواسطہ پشت پناہی کے سوا کچھ نہیں۔
یورپی یونین نے 20 مئی کو انسانی حقوق کی پاسداری کے تقاضے کے تحت اسرائیل کے ساتھ شراکتی معاہدے کا جائزہ لینے کا اعلان کیا تھا، جو ہالینڈ کی تجویز پر عمل میں آیا۔ ماہرین کے مطابق، معاہدے کی مکمل معطلی فی الحال ممکن نہیں کیونکہ اس کے لیے تمام رکن ممالک کی متفقہ منظوری درکار ہے۔ تاہم، تجارت، تحقیق، ٹیکنالوجی، ثقافت اور سیاسی مکالمے جیسے شعبوں میں کچھ دفعات کو اکثریتی رائے سے معطل کیا جا سکتا ہے۔
اسپین، آئرلینڈ اور سلووینیا اُن ممالک میں شامل ہیں جو معاہدے کو معطل کرنے کے حامی ہیں، جبکہ جرمنی، آسٹریا، چیک جمہوریہ اور ہنگری اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ سات اکتوبر 2023ء سے قابض اسرائیل نے امریکہ کی کھلی پشت پناہی میں غزہ پر نسل کشی مسلط کر رکھی ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہید، زخمی اور بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہ نسل کشی قتل، قحط، تباہی اور جبری ہجرت جیسے جرائم پر مشتمل ہے، جس میں اب تک 1,98,000 سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ 11,000 سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، اور غذائی قلت معصوم بچوں کی جانیں نگل رہی ہے۔