غزہ – (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے ایک سینئر رہنما نے اس امر کی پُرزور تردید کی ہے کہ فلسطینی مزاحمت کا انحصار کسی بیرونی اسمگلنگ یا سرحد پار اسلحہ کی فراہمی پر ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ القسام بریگیڈز کی تمام عسکری قوت مقامی وسائل، اندرونِ غزہ تیاری اور خود انحصاری کا نتیجہ ہے۔
القسام کمانڈر نے قابض اسرائیل کے اس پروپیگنڈے کو بھی مسترد کیا، جس میں رفح کی زیرِ زمین مبینہ سرنگوں کا بہانہ بنا کر شہر کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ الزامات محض سیاسی اور نظریاتی اہداف کے حصول کے لیے گھڑے گئے جھوٹ ہیں، جن کے ذریعے قابض ریاست اپنی درندگی، تباہی اور نسل کشی کو جواز دینے کی کوشش کر رہی ہے۔
الجزیرہ ٹی وی سے گفتگو میں القسام رہنما کا کہنا تھا کہ قابض اسرائیل نام نہاد سیکیورٹی خدشات کو ہتھیار بنا کر بے گناہ شہریوں، پناہ گزینوں اور بچوں پر بمباری کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’رفح میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا کوئی تعلق اسمگلنگ سے نہیں، بلکہ یہ اجتماعی سزا دینے کی پالیسی اور مزاحمت کو کچلنے کی ناکام کوششوں کا تسلسل ہے۔‘‘
قابض اسرائیل، بالخصوص اس کی حکومت کے سربراہ بنجمن نیتن یاہو، رفح میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی اور صلاح الدین راہداری پر کنٹرول کا جواز یہ دے رہے ہیں کہ مصر سے اسلحہ کی ترسیل روکنا ناگزیر ہے۔
تاہم، القسام بریگیڈز کے اس رہنما نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کی کارروائی، اور اس سے پہلے اور بعد کی مزاحمتی جدوجہد اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ حماس کی عسکری قوت مکمل طور پر اندرونی پیداواری نظام پر منحصر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مزاحمت اپنی اسلحہ سازی، راکٹ سازی اور دفاعی ٹیکنالوجی میں خودکفیل ہو چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں قائم مزاحمتی صنعت، سخت محاصرے اور وسائل کی شدید کمی کے باوجود ایک مکمل اور فعال جنگی نظام تیار کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے، جو فلسطینی قوم کی استقامت اور عزم کا عملی مظہر ہے۔
یاد رہے کہ مئی 2024ء میں قابض اسرائیل نے رفح میں فوجی یلغار کا آغاز کیا، جس میں شہر کی اکثریتی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بنا دی گئیں۔ شہر کا وجود عملاً مٹ چکا ہے، اور لاکھوں شہری دربدر ہو چکے ہیں۔
اب رفح ایک بار پھر خبروں کی زینت بنی ہوئی ہے، کیونکہ قابض اسرائیل کی حکومت نے ایک شرمناک منصوبہ پیش کیا ہے جسے ’’انسانی شہر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ درحقیقت، یہ جنوبی غزہ میں خیموں کا ایک وسیع کیمپ ہوگا، جس کا مقصد تقریباً چھ لاکھ فلسطینیوں کو قید کرنا ہے، اور خدشہ ہے کہ یہ منصوبہ بالآخر فلسطینیوں کو زبردستی بیرونِ ملک نکالنے کی خوفناک سازش کا پیش خیمہ بنے گا۔
قابض اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق، اتوار کی شب کابینہ کے اجلاس میں اس منصوبے پر فوج اور حکومت کے درمیان شدید اختلافات سامنے آئے۔ فوج نے اندازہ لگایا ہے کہ خیموں کا یہ شہر تعمیر ہونے میں کم از کم ایک سال لگے گا اور اس پر اربوں شیکل لاگت آئے گی، جب کہ حکومت چند ماہ میں اس کی تکمیل کا دعویٰ کر رہی ہے۔
دوسری جانب، غزہ کے خلاف جاری صہیونی جنگی جنون نے 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے پوری انسانیت کا ضمیر جھنجھوڑ دیا ہے۔ اس نسل کش جنگ میں اب تک ایک لاکھ چھیانوے ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ گیارہ ہزار سے زائد افراد اب بھی لاپتا ہیں، جب کہ شدید قحط اور بھوک نے درجنوں معصوم بچوں کی جان لے لی ہے۔