غزہ – (مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) غزہ ایک ایسا خطہ ہے جہاں زمین آنکھوں کے سامنے لہو رنگ ہو چکی ہے، آسمان پر ہر دم بمباری کے سائے منڈلاتے ہیں اور زندگی ایک مسلسل ماتم میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ان حالات میں اگر کوئی سب سے زیادہ نظرانداز، سب سے زیادہ بےبس اور سب سے زیادہ تنہا ہیں، تو وہ غزہ کے بزرگ ہیں۔ وہ ہستیاں جنہوں نے فلسطین کی جدوجہد کو جنم لیتے دیکھا، جن کے ہاتھوں نے فصلیں اگائیں، جن کے لبوں نے دعائیں مانگیں اور جن کے قدموں نے مٹی سے وفا نبھائی۔
آج وہی بزرگ نسل کشی کی دہکتی آگ اور محاصرے کے بھیانک جہنم میں ہر لمحہ موت سے آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔
غزہ کی سرزمین پر بزرگوں کی تعداد ایک لاکھ سات ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، جو کل آبادی کا پانچ فیصد ہیں۔ ان کی اکثریت خیموں اور پناہ گزین کیمپوں میں انتہائی تکلیف دہ حالات میں رہ رہی ہے۔ ان خیموں میں نہ دوا ہے، نہ خوراک، نہ پانی، نہ بجلی، نہ کسی محفوظ سانس کی گنجائش۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں زندگی کی بنیادی ضروریات ناپید ہو چکی ہیں اور امید کی شمعیں مدھم پڑ گئی ہیں۔
”میں دوائیں لینا بھول گئی“
75 سالہ معینہ بدرہ کی سسکتی آواز میں وہ درد ہے جو دل چیر کر رکھ دیتا ہے: ”جب ہم بھاگے تو اتنا کچھ دیکھا کہ ہوش ہی نہ رہا۔ میں اپنی دوائیاں بھی پیچھے چھوڑ آئی۔ شوگر اور بلڈ پریشر کی مریض ہوں۔ نہ خود واپس جا سکتی ہوں، نہ ہی کسی بیٹے کو بھیج سکتی ہوں۔ ڈرتی ہوں کہیں وہ لوٹ کر نہ آئے۔“
معینہ کی یہ فریاد صرف ایک بوڑھی ماں کی نہیں، یہ پوری فلسطینی قوم کا نوحہ ہے، جو آج بکھرتے وجود کے ساتھ صرف جینے کی اجازت مانگ رہی ہے۔
جنگ سے پہلے سب کچھ مہیا تھا، ہسپتال تھے، ڈاکٹر تھے، دوا تھی، زندگی تھی۔ مگر اب؟ اب ہر طرف موت کا راج قائم ہے۔
قابض اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیاں جس وحشی پن سے زندگی کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر رہی ہیں، وہ کسی بچے، کسی عورت یا کسی بزرگ کو نہیں بخش رہیں۔
محاصرہ ہے، بمباری ہے اور بےیقینی ہے، اور ان سب کے بیچ زندگی بکھر چکی ہے۔
معینہ کہتی ہیں: ”جہاں بھی تھوڑا سا سکون ملتا ہے، وہیں بم برسنے لگتے ہیں۔ دوبارہ بھاگتے ہیں، نہ سمت معلوم، نہ منزل۔“
خیمے میں قید یہ کمزور جسم آج اتنے بھی محتاج ہو چکے ہیں کہ اپنی تکلیف کسی کو کہہ بھی نہیں سکتے۔ معینہ بس یہ دعا کرتی ہیں کہ اپنی اولاد پر بوجھ نہ بنیں۔
دواؤں کا ایک نوالہ، جس پر زندگی کا دار و مدار ہے
خلیل شحادہ کی داستان اس زخم کی تصویر ہے جو ہر فلسطینی گھر میں تازہ ہے۔ ان کے 85 سالہ والد دائمی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
“کھانے کی چیزیں مہنگی ہیں، مناسب نہیں۔ اکثر میں خود بھوکا رہتا ہوں تاکہ ابا کے لیے روٹی بچا سکوں۔”
خلیل کے والد کو شوگر، بلڈ پریشر اور جوڑوں کے درد کی دوائیں درکار ہیں۔ مگر ہسپتالوں میں کچھ بھی نہیں۔ مہینے سے زائد گزر چکا ہے۔
“انہیں دیا جانے والا کھانا بار بار کا ایک جیسا ہے۔ وہ کھانے سے انکار کرتے ہیں۔ پانی کی قلت اور خوراک کی کمی نے ان کی صحت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔”
یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں، بلکہ آج غزہ کی ہر گلی، ہر خیمے، ہر آہ میں گونجتی ہوئی صدا ہے۔
غزہ، جہاں زندگی کا ہر راستہ بند ہے!
قابض اسرائیل کی مسلسل بمباری، طبی سہولیات کی بندش، ادویات کی نایابی اور روز افزوں غربت نے غزہ کے نظامِ زندگی کو زمیں بوس کر دیا ہے۔
ہسپتال یا تو بند ہو چکے ہیں یا پھر دم توڑتی سانسوں کی مانند چل رہے ہیں۔ ایسے میں بزرگ شہری، جو سب سے زیادہ کمزور اور حساس طبقہ ہیں، موت کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
یورومیڈٹیرین ہیومن رائٹس آبزرویٹری کی رپورٹ بتاتی ہے کہ جنگ میں شہید ہونے والوں میں 4 فیصد بزرگ ہیں، جن میں سے 70 فیصد ایسے ہیں جو پہلے ہی کسی نہ کسی بیماری کا شکار تھے۔ ان کے لیے دوا کا نہ ہونا گویا زندگی کے دروازے کا بند ہو جانا ہے۔
دنیا خاموش کیوں ہے؟
قابض اسرائیل کے اس بےرحمانہ محاصرے نے ایک ایسا دائرہ قائم کر دیا ہے جس میں بزرگ موت کی آہٹوں کے درمیان بےیار و مددگار جینے پر مجبور ہیں،
جبکہ دنیا، جو انسانیت کی علمبرداری کے نعرے بلند کرتی ہے، کہیں چپ ہے، کہیں مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
یہ وہ بزرگ ہیں جنہوں نے جدوجہد دیکھی، قربانیاں دیں، نسلوں کو سنوارا، اور آج خیموں میں، پیاسے، بھوکے، دوا سے محروم سسک رہے ہیں۔
یہ صرف اعداد نہیں، یہ انسان ہیں… یہ کہانیاں ہیں… یہ ایک قوم کی غیرت اور وفا کی گواہی ہیں۔
یہ سوال باقی ہے:
کیا زندہ رہنا ان کا جرم بن چکا ہے؟
کیا ان کا بڑھاپا دنیا کو نظر نہیں آتا؟
کیا ان کے لیے دوا، خوراک اور تحفظ کا حق مانگنا انسانی حقوق کی تضحیک ہے؟
غزہ کے یہ بزرگ آج بھی فلسطین کی آزادی کی علامت ہیں۔
ان کے جسم کمزور ہو چکے ہیں، مگر ارادے فولاد سے بھی زیادہ مضبوط۔
ان کی کمزور آنکھوں میں ابھی بھی ایک امید چمکتی ہے:
زندگی، عزت، اور فلسطین کی مکمل آزادی۔