دوحہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن) قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے واضح کیا ہے کہ دوحہ میں جاری غزہ کے حوالے سے حماس اور قابض اسرائیل کے درمیان بالواسطہ مذاکرات تاحال کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔ ان مذاکرات کا مقصد جنگ بندی کے ایک ابتدائی خاکے پر متفق ہونا ہے تاکہ فلسطینیوں پر جاری خونریز یلغار کو روکا جا سکے۔
ترجمان الانصاری نے منگل کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ “ابھی ان مذاکرات کی رفتار کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا قبل از وقت ہوگا”، کیونکہ بات چیت ایک عمومی فریم ورک کے مسودے پر مرکوز ہے، جبکہ تفصیلی مباحثوں کا آغاز تاحال نہیں ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ قطری اور مصری ثالث مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ دونوں فریقین کے درمیان اختلافات کو کم کیا جا سکے۔ بات چیت کا مقصد ابتدائی طور پر 60 دن کی ایک ایسی جنگ بندی ہے جسے بعد میں توسیع دی جا سکے۔ الانصاری نے خبردار کیا کہ اگر قابض اسرائیل کی طرف سے زمینی جارحیت یا کوئی نیا فوجی حملہ ہوا تو اس کا براہ راست اثر مذاکرات پر پڑے گا۔
ترجمان نے امریکہ کے خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکوف کی آئندہ مذاکراتی نشستوں میں متوقع شرکت کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شمولیت سے مذاکراتی عمل کو نئی قوت مل سکتی ہے۔ واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے اعلان کیا تھا کہ ویٹکوف رواں ہفتے کے آخر میں قطر جائیں گے تاکہ جاری مذاکرات میں شریک ہو سکیں۔
تاہم، ماجد الانصاری نے قابض اسرائیلی وزیر جنگ یسرائیل کاٹس کی جانب سے فلسطینیوں کی جبری ہجرت سے متعلق دیے گئے بیان کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دے کر سختی سے مسترد کر دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی مذاکراتی وفد کے اختیارات کے بارے میں قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، اور یہ بھی واضح کیا کہ مذاکراتی عمل کے لیے کوئی باقاعدہ وقت یا شیڈول مقرر نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم مذاکرات کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں کرتے، یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کوئی معاہدہ نہ ہو جائے۔”
قطر کے وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ دونوں فریق ثالث کی کوششوں کے حوالے سے “مثبت رویہ” دکھا رہے ہیں، جو ایک امید افزا اشارہ ہے۔
اتوار کی شب قابض اسرائیل کا مذاکراتی وفد دوحہ پہنچا تھا۔ پیر کے روز خبررساں ادارے رائٹرز نے دو فلسطینی ذمہ داران کے حوالے سے بتایا کہ جنگ بندی کے حوالے سے منعقدہ ابتدائی نشست بغیر کسی فیصلہ کن نتیجے کے ختم ہو گئی، اور اسرائیلی وفد کو مکمل اختیارات حاصل نہیں تھے بلکہ اسے “حقیقی اختیارات” حاصل ہی نہیں۔
قابض اسرائیل مسلسل مذاکرات میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ وہ امریکہ میں قائم “میڈلین فاؤنڈیشن برائے انسانی ہمدردی” جیسے ادارے کو ختم کرنے، رفح بارڈر کھولنے، اور غزہ سے اپنے فوجی انخلا جیسے جائز فلسطینی مطالبات ماننے سے انکار کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ سات اکتوبر سنہ2023ء سے قابض اسرائیل غزہ میں ایسی بھیانک نسل کشی کر رہا ہے جس میں بچوں، عورتوں اور معمر افراد تک کو نہیں بخشا جا رہا۔ قتل، بھوک، بمباری اور جبری بے دخلی اس نسل کشی کا حصہ ہیں۔ اب تک اس درندگی میں 194 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جب کہ گیارہ ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، سینکڑوں بچے بھوک سے دم توڑ چکے ہیں۔ مغربی کنارے اور القدس میں بھی قابض اسرائیلی افواج کے مظالم سے کم از کم 991 فلسطینی شہید اور 7 ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔